"ZIC" (space) message & send to 7575

بھارت سے شاعری کی یلغار(2)

665 صفحات پر مشتمل شمس الرحمن فاروقی کے کلیات ِنظم '' مجلس آفاق میں پروانہ ساں‘‘کی لائبریری قیمت 695 روپے ہے۔ اس میں کچھ دیباچے اور پیش لفظ وغیرہ بھی شامل ہیں۔'' گنج سوختہ‘‘ کا دیباچہ ن م راشد کا تحریر کردہ ہے۔ پیش لفظ نوشاد کامران کے قلم سے ہے جبکہ عرض واقعی کے عنوان سے تحریر شہناز نبی کی ہے جبکہ '' آسماں محراب‘‘ کا دیباچہ خود شاعر کے قلم سے ہے۔ اختتامیہ بھی انہوں نے خود تحریر کیا ہے جبکہ احمد مشتاق کے ایک خط سے اقتباس بھی شامل ہے۔ انتساب جمیلہ فاروقی، محمد خلیل الرحمن فاروقی، مہر افشاں اور باراں کے نام ہے۔ خراج ِعقیدت کے حوالے سے افتخار جالب ، فانی، بلراج کومل، جمیلہ فاروقی، شہریار، عرفان صدیقی، یسری کشور، محبوب الرحمن فاروقی، محمود ہاشمی، نیّر مسعود اور ن م راشد کے نام شامل ہیں۔ ٹائٹل اور خطاطی آصف جمیل اور عادل منصوری (مرحوم) کی عطا ہے۔
اب ہم ان کی غزلوں کی طرف آتے ہیں۔ احمد مشتاق اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ ''مجموعی طور پر تمہاری غزلوں کا تاثر بھرپور ہے ‘لیکن بعض غزلیں اور اشعار تو ایسے ہیں کہ بڑے بڑوں کے ہاں نہ ملیں گے۔ ان غزلوں میں سے کچھ اشعار دیکھئے:
سرحدِ آسماں کے پاس جال بچھے تھے ہر طرف
کس نے کیا ہمیں اسیر ‘ شوق شکار کس کو تھا
............
بے حسی میں جیتے ہیں کچھ سزا ہی مل جائے
کتنا سونا جنگل ہے، بھیڑیا ہی مل جائے
............
حرفِ سر سبز کے اسرار ہمیں تک ٹھہرے
رنگِ شہرت تو یہاں سادہ بیانی سے ملا
............
بڑھتے بڑھتے بن گیا میں سنگ سے دیوارِ سنگ
اس لیے ٹوٹی پڑی ہے مجھ پہ آبادی تمام
............
داغ ِناکامی کو سینے میں چھپا رہنے دیں
یہی اک لعل ہے جو طرۂ دشمن میں نہ تھا
............
جنگل میں کھلی ہوا تو ہو گی
آوارگی کچھ رہا تو ہو گی
............
آنکھ اس کی مجھ پہ ہے وہم سا تھا ایک بار
اتنی سی اک بات کا دل نے دفتر کر لیا
اب کے دھوئیں میں خون کی سرخی کا رنگ ہے
یوں ان گھروں میں پہلے بھی لگتی رہی ہے آگ
............
ناخن سے سینہ چیر لوں کچھ کہہ نہ پائوں میں
ناخن ہے تیز پھر بھی زباں کس طرح بنے
اس دل کے دشتِ شورہ پہ ٹکنا نہیں ہے کچھ
حیراں ہوں تیرے قصر یہاں کس طرح بنے
............
اُس لو کی چمک دل سے بسرنی تو نہیں تھی
درہم تھی بساط اپنی بکھرنی تو نہیں تھی
وہ جوئے تنک آب سُکھا دی گئی شاید
وہ خون کی ایک بوند گنوا دی گئی شاید
............
کیا یہی ہے میری محبت کا چراغ
کچھ تہہ داماں سا ہے جلتا مجھ میں
............
چھپایا ہے تری ہستی میں اپنے خواب ِمستی کو
یہ خواب ایسا نہیں جس کو دوبارہ دیکھ سکتا ہوں
احمد مشتاق لکھتے ہیں کہ تمہاری غزلوں میں جو مجھے بہت اچھی لگیں، ان کے پہلے مصرعے یہ ہیں:۔
۱) یہ تاب و تب یہ ہوائے ہنر اسی سے ملی
۲) شعلہ بہار رنگ ہے بھڑکی ہوئی ہے آگ
۳) اک لفظ وہ بھی بانجھ یہاں کس طرح بنے
۴) بس کہ سجدے کے جتن شیخ حرم نے نہ کیے
۵) بدل گئی ہے بہار و خزان ِ دل زدگاں 
۶) صفحۂ خاک تھا میں سات سمندر وہ شخص 
اور جن اشعار نے واقعی مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے‘ وہ یہ ہیں ؎
یہ کس بدن کا تصرف ہے روئے صحرا پر
لگائی پیٹھ جو میں نے کمر اسی سے ملی
............
رگ میں نشتر کر گئی شام کی ٹیڑھی ہوا
پھول نے زیر زمین اپنا بستر کر لیا
اب ریت ہو چلی ہے پچھلے برس کی بارش
بادل نے راہ بدلی پھر گھوم کر نہ دیکھا
............
سینۂ چورنگ اور اک گوشے میں مہتاب کی لو
صبح ِکازب میں یہ دیکھا پہ بیاں کس سے کروں
............
اب کے دھوئیں میں خون کی سرخی کا رنگ ہے
یوں ان گھروں میں پہلے بھی لگتی رہی ہے آگ
............
ربط کا زہر گلِ زرد سا صحن ِدل میں
موت کی طرح سے اترا میرے اندر وہ شخص
............
اس دل کے دشتِ شورہ پہ ٹکتا نہیں ہے کچھ
حیراں ہوں تیرے قصر یہاں کس طرح بنے
............
میرے منہ پر تو ہوس کی اک علامت تک نہ تھی
وہ جھجک کر ہٹ گئی کچھ مجھ سے پوچھا کیوں نہیں
............
بھر دیا ایک توجہ میں ہوس کا کشکول
جسے جلوئوں نے تیرے مہر کرم نے نہ کیے
آج کا مقطع
لمس کی گرمی کہاں سے آئی تھی اس میں ظفرؔ
یہ اگر وہ خود نہیں تھا، یہ اگر آواز تھی

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں