شمس الرحمن فاروقی کی غزل کے تیور آپ نے دیکھ لیے‘ لیکن ان کا اصل جوہر نظم میں کھلتا ہے۔ ن م راشد ''گنج سوختہ ‘‘کے دیباچے میں لکھتے ہیں: ''جہاں اکثر جدید شاعر اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا کے روبرو پاتے ہیں‘ جو محض گنجلک ہے اور جس پر پورے طور پر ایمان لانا ممکن نہیں۔ گنج سوختہ کی نظمیں ایک ایسی دنیا کا ذکر کرتی ہیں‘ جو ثابت و سالم بھی ہے اور ہموار بھی۔ صرف انسان اس کے اندرفریب خوردہ ہے... ان نظموں کا خالق فلسفی نہیں‘ لیکن فلسفہ ہو یا اخلاق‘ اس کے ادبی اور جمالی امکانات سے کام لینا بخولی لینا بخولی جانتا ہے...‘‘ یہ کم و بیش سبھی آزاد نظمیں ہیں۔ اس کے اندر نظموں کے منظوم تراجم بھی ہیں اور بچوں کے لئے نظمیں بھی ۔ نمونے کے طور اور جگہ کی تنگی کے پیش نظر چند شہ پارے حاضر ہیں:۔
مناجات
اس سے پہلے کہ؍ نقاب گل و گلزار میں پوشیدہ کہیں؍ اپنے پیوند لگے جبہ صدرنگ میں ملبوس؍ مسخرہ موت کا میرے چمنستان و درو بام پہ کالک لیتے؍ ہانپتے جسم تھیٹر کے کھلاڑی کی طرح؍ ہستیٔ موہوم کا اک سایۂ بے وزن بنیں؍ صورت ِبے شکل بنیں؍ اس سے پہلے کہ سمندر لب ِ افسوں کو ہلا کر شب ِمہتاب کے ٹکڑے کر دے؍ اس سے پہلے کہ ؍ ہزاروں مہ و خورشید کی تابش سے فزوں خیرہ کناں؍ موت صفت ذرۂ ناچیز کوئی؍ بام ِافلاک سے پھٹ کر سرِ گیتی پہ گرے؍ جاگتی سوتی گلابی لب و رخسار کی گڑیا کا جگر چاک کرے؍ اس سے پہلے؍ کہ یہ ہو۔ اس ؍ سے پہلے کہ یہ ہو؍ اس سے پہلے مجھے مر جانے کی مہلت دے دو
کالے پھولوں کا رنگ
کون تھا؍ سرد بستر پر پڑا‘لمبا؍ کسی سائے سے ہرگز کم نہ تھا؍ کس قدر با وزن‘ کتنا بے بدن؍ گول کالا منہ‘ چمکتی آنکھیں‘ پھر بھی زرد رو؍ گھر کے اس دروازے سے اس کونے تک پھیلا ہوا؍ دونوں دیواروں سے ٹکراتے ہوئے ہاتھوں میں ٹیڑھے کالے پھول؍ دیو ہمت دیوتا؍ دیوقامت‘ مگر بے وزن دیو؍ کون سے رستم کا وہ سہراب تھا؍سنگِ بستر پر پڑا؍ پھولوں کا رنگ؍ ساری دیواروں کو کالا کر گیا؍ میرا سارا جسم نیلا کر گیا۔
تنگ تنہائی میں بات چیت
آسماں چیر کے آہ۔ سامنے آ؍ میری پیشانی پہ لکھ‘ نیلا قلم زر دلکیر؍ مور کی دمک سبز‘ چمک شیر کی رفتار کا رنگ؍ سنہرا‘ کبھی کالا‘ کبھی روشن؍ سرد جھونکے کی وہ سفاک جگر چاک چبھن؍ پردئہ رنگ ؍ وہ شفاف ہوائیں کہ گھنیرا جنگل؍ میں سیاہ فام ؍ کہ برفیلے بیاباں میں سفیدی کا شکار؍ برف ہے یا کہ سیاہی ہے‘ جو معدوم کیے دیتی ہے۔ خواب بن بن کے اڑا؍ پارۂ نور ہو یا پارئہ سنگ؍ مگر ٹوٹ کے گر۔ مجھ میں چمک جا؍ آ جا میرے ٹکڑے کر دے؍ میرے پرُ خوف خدا
بار گراں
اُڑا کر دیکھ لو؍ یہ چٹانیں اُڑ نہ پائیں گی؍ کمر ٹوٹی ہوئی چیونٹی یا گردن شکستہ ٹڈیاں ہوں؍ گھستی رینگتی پر پھڑ پھڑاتی کسی صورت سہی؍ پانی کے ننھے ذرے کی خاطر وہ اک آدھا قدم؍ تو چل ہی لیتی ہیں۔ مگر یہ چٹانیں؍ تم چلا کر دیکھ لو؍ یہ چٹانیں ہٹیںتو؍ آنکھ کے لپٹے ہوئے منظر کھلیں؍ بوسیدہ پر اسرار جھلی کی عبارت؍ سامنے آئے تو یہ معلوم پڑ جائے؍کہ تقدیروں ضمیروں میں لکھا کیا ہے؍ نسیم درد زرد بے جدائی؍ تو بھی اس موجِ کشاکش سے بھری ہے جو؍ ہمارے دامنوں کو اپنے وحشی؍ پنجۂ سرخ آب سے چھینٹیں اڑا کر سخت؍بھدے رنگ سے رنگین کرنے کیلئے سو سو طرح سے مستعد ہے؍ ہمارے دامن وادیٔ و صحرا میں؍ ہزاروں خط صورت سے مزین جونک پتھر اُگ رہے ہیں؍ پنجۂ وحشی صفت رُک؍ کچے خون کے دھبے مٹا ڈالے تو اچھا ہے؍ مگر یہ سب دیکھائی دے تو کیوں کر؟ بھونڈی چٹانی شکلیں، ننھے کیچوے جیسے؍ بچاروں کو مسل کر پیستی ہیں ۔تم؍ ہلا کر دیکھ لو چٹانیںہل نہ پائیں گی
خواب کا خطر
میں خواب اگر نہ دیکھتا تو؍ اک لمحے کا کھیل تھا افق بس؍ شب کے صحرا میں جھلملاتی من موہنی جنگلی بھیانک؍ لہراتی صورتیں دکھا کر چپ چاپ جھپک کے کھو گیا ہوتا؍ میں سوجو گیا تو کھو گئے معنی؍ پھر خواب میں بس سوال دیکھے؍ سورج میں سیاہ داغ کیا ہیں؍ قوت کے دھارے کیوں ابلتے ہیں؍ پانی میں بھی کیا چراغ جلتے ہیں؍ آتا ہے یہ قافلہ کہاں سے؍ کیا نسبت جسم کو ہے جاں سے؍ جلنے کا پگھلنے کاٹنے کا؍ آنکھوں کو ہنر سکھایا کس نے ؍لیٹی ہے زمین خاک پر کیوں ؍ اُگتی ہے شراب تاک پر کیوں؍ آغاز میں انتہا ہے کیا معنی؍نقطہ نقطہ خدا ہے کیا معنی؍ سب کھیل یہ سر پھرے سوالوں کا؍ اک ذرہ آسماں پہ چمکا تھا؍ اک عمر کٹی نہ حل ہوا کچھ؍ اے کاش نہ خواب دیکھتا میں
میں نے اک چور سے کہا
میں نے اک چور سے کہا؍ مجھے ایک شفتالو توڑ دے؍ اس نے گول گول دیدے گھمائے اور چپ رہا؍ میں نے ایک دبلی پتلی کامنی سی بیگم سے کہا؍ آئو میرے بستر میں آئو؍ حلیم اور پاکیزہ وہ آنکھ میں آنسو بھر لائی؍ میرے جاتے ہی اک فرشتہ آیا؍ چور پر وہ چشمک زن ہوا اور بیگم سے اس نے تبسم کیا (ولیم بلیک)
مورنامہ (بچوں کیلئے)
اس جنگل میں مور بہت ہیں؍ نیلے پیلے چور بہت ہیں؍ دن بھر موروں کی جھنکار؍ اوپر نیچے چیخ پکار؍ شیرمیاں کو نیند نہ آئی؍ لے کر اک لمبی سی جمائی؍ لومڑی بی سے کہلایا؍ موروں کو کس نے بلوایا؍ مور تو کرتے شور بہت ہیں؍ اس جنگل میں مور بہت ہیں؍ نیلے پیلے چور بہت ہیں؍ رات کا آنگن چاندی جیسا؍ دن کا چہرہ تھالی جیسا؍ رات کے گھر میں کتنے گھوڑے؍ دن کے کپڑے کتنے جوڑے؍ مور کے کپڑے کیسے انوکھے؍ نیلے ہرے سے سرخ سنہرے؍ مور کی دم میں سونے کے چھلے؍ اس سے کہنا ہم سے بدل لے؍ بھورے سنہرے پروں کو کھولے؍ مور اُڑا‘ تو سب یہ بولے؍ اس کے پر کمزور بہت ہیں؍ اس جنگل میں مور بہت ہیں؍ نیلے پیلے چور بہت ہیں
آج کا مقطع
میں ایک قطرے کو دریا بنا رہا ہوں‘ ظفرؔ
اور اس کے بعد اسے میں نے پار کرنا ہے