"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ’’تسطیر‘‘ میں سے منتخب اشعار…(1)

جوپروپیگنڈا کر رہے ہیں‘ وہ جانیں اور ان کا کام: نوازشریف
مستقل نااہل اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے لندن میں اپنی نئی جائیدادوں کے انکشاف کے سوال پر کہا ہے کہ ''جو پروپیگنڈا کر رہے ہیں‘ وہ جانے اور ان کا کام‘‘ کیونکہ اتنی لمبی چوڑی جائیدادوں کا حساب رکھنا‘ کوئی آسان کام نہیں ہے ‘کیونکہ میں حکومت کرتا یا بیٹھ کر ان جائیدادوں کو گنتا رہتا؛ البتہ کچھ دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ ڈیلی میل کے خلاف اس انکشاف پر مقدمہ دائر کر دوں‘ لیکن میں ایک امن پسند آدمی ہوں‘ یہ کام مجھے زیب نہیں دیتا‘ بندہ پوچھے اس چغل خوری سے اس اخبار کو کیا ملا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''الیکشن مہم میں حصہ لینا فی الحال ممکن نہیں‘‘ کیونکہ اگر واپس نہ گیا‘ تو یک طرفہ فیصلہ آ جائے گا‘ جو زیادہ سے زیادہ شدید بھی ہو سکتا ہے‘ اس لیے راوی کم بخت کسی بھی طرح سے چین نہیں لکھتا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کا مشکور ہوں کہ میرے مقابلے میں آئے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''عمران خان کا مشکور ہوں کہ میرے مقابلے میں آئے‘‘ کیونکہ مستقبل کے وزیراعظم کے خلاف الیکشن لڑنا ‘واقعی کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ اوّل‘ تو اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور میں پہلے ہی پیراگون سٹی اور دیگر معاملات میں دھر لیا جائوں گا اور اسی وجہ سے عمران خان کی چالاکی بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اسے واک اوور مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''جب تک عمران خان کو پانچوں حلقوں سے شکست نہیں ہوتی ‘ وہ انسان نہیں بنیں گے‘‘ جبکہ میں ایک حلقے سے ہار کر بھی انسان بن جائوں گا‘ کیونکہ اگر آدمی واقعی انسان بننا چاہے‘ تو اسے زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے‘ جبکہ وقت کی قدر کرنا ہی ہمارا طرۂ امتیاز ہے کہ ہمیں جو بھی موقعہ ملا ہے‘ ہم نے وقت ضائع کیے بغیر ہی وہ سارا کچھ کرکے دکھا یا ہے‘ جس کے لیے نیب وغیرہ کو مصیبت پڑی ہوئی ہے اور جو عدالتوں کو ابھی پڑنے والی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔
میرا مقابلہ ان سے ہے ‘جو مشرف کے ساتھ رہے: چوہدری نثار
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے کہا ہے کہ ''میرا مقابلہ ان کے ساتھ ہے‘ جو مشرف کے ساتھی رہے‘‘ تاہم میں نے ساتھ نوازشریف کا دیا ‘جو ایک اور ڈکٹیٹر کی پیداوار تھے‘ کیونکہ دونوں میں کافی فرق تھا ‘جبکہ ضیاء الحق نہ صرف مونچھوں والے تھے‘ بلکہ وہ انہیں تائو بھی دیا کرتے تھے اور ایسا کرتے ہوئے میں نے انہیں خود کئی بار دیکھا ہے اور مونچھوں کا فرق کوئی معمولی فرق نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''نہ وہ تحریک کی طرف ‘نہ نون لیگ کی طرف دیکھتے ہیں‘‘ بلکہ صرف شہبازشریف کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ جنہوں نے لارا لگائے رکھنے کے بعد اب میرے خلاف اپنے امیدوار کھڑے کر دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف سے کس بات پر اختلاف ہے‘ جلد بتائوں گا‘‘ اور جن باتوں پر میرا ان سے اتفاق تھا‘ انہی کی گرفت میں اب وہ آئے ہوئے ہیں۔ اس لیے میں اپنے طور پر بھی کافی فکرمند ہوں کہ اس کی لپیٹ میں کہیں میں بھی نہ آ جائوں۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان اپنے منشور سے منحرف ہو چکے ہیں: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''عمران خان اپنے منشور سے منحرف ہو چکے ہیں‘‘ اگرچہ انہوں نے اپنے منشور کا اعلان ابھی چند روز میں کرنا ہے‘ لیکن وہ اس سے پہلے ہی منحرف ہوگئے ہیں‘ جبکہ ہمارا تو منشور ایک ہی نکتے کے گرد گھومتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدمت کس طرح سمیٹنی ہے؛ چنانچہ اس خدمت کا معیار خاکسار نے ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت بھی پیش نظر رکھا ہے‘ جس کی وجہ سے انکل زعیم قادری کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں‘ کیونکہ جنہوں نے کامیاب ہو کر اربوں کمانے ہیں‘ دس کروڑ میں یہ سودا ہرگز مہنگا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چیئرمین پی ٹی آئی نے لوگوں کی سیل لگا رکھی ہے‘‘ جبکہ ہماری سیل اس سے کافی مختلف ہے کیونکہ ایک تو یہ تھوک کے حساب سے ہے اور دوسرے اس میں کوئی رسک بھی نہیں ہے ‘کیونکہ وہ اس سے مشروط نہیں ہے کہ امیدوار کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔وہ اگلے روز مختلف امیدواروں سے معاملات طے کر رہے تھے۔
اور اب نصیر احمد ناصر کے جریدے ''تسطیر‘‘ (4) میں شائع ہونے والی غزلوں سے منتخب اشعار۔
عرصۂ رائگاں میں رہتے ہو
کون سے آسماں میں رہتے ہو
ہم تمہاری اماں میں رہتے ہیں
تم ہماری اماں میں رہتے ہو
ہر شخص اپنے خوف کی مٹھی میں بند ہے
کوئی دریچہ شہر کے اندر نہیں کھُلا (انوار فطرت)
شہر میں رہ کر زندگی کرنا سیکھ لیا ہے
لوگوں نے سڑکوں پر مرنا سیکھ لیا ہے
چھوٹے تھے مٹھی میں سانپ پکڑ لیتے تھے
ہو کے بڑے اب ہم نے ڈرنا سیکھ لیا ہے
پانی شہر پہ اُترا ہے کہ اتارا گیا ہے
اپنے ہاتھ سے تو اس بار کنارا گیا ہے
کئی برس کی مسافت کے بعد رُک کر اب
اُسے گنا تو لگا بے شمار ہے اپنا
وہ رزق دیتے ہیں ہم کو‘ مگر قطاروں میں
سو چیونٹیوں میں ہی غافرؔ شمار ہے اپنا
خود کو چلتے رکھنا بھی سرشار رکھتا ہے مجھے
جانتا ہوں راہ اس کی سمت یہ جاتی نہیں (غافر شہزاد)
آنکھوں میں اک خواب نہیں رہنے والا
آئینے میں ایک عجب حیرانی ہے (سید کامی شاہ)
آج کا مطلع
احساں نہیں کرتا جو گزارے کے علاوہ
وہ بھی کسی مبہم سے اشارے کے علاوہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں