جو مرضی کر لیں‘ الیکشن کے دن ووٹر کو نہیں روکا جا سکتا: مریم نواز
مستقل نا اہل سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''جو مرضی کر لیں‘ الیکشن کے دن ووٹر کو نہیں روکا جا سکتا‘‘ کیونکہ اِدھر اُدھر ہونا ووٹر کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی رائے تبدیل بھی کر سکتا ہے‘ جبکہ میرے حالات تو پہلے ہی بیحد مخدوش ہیں کہ چچا جان اور حمزہ بھائی ‘نہ صرف یہ کہ مجھے سپورٹ نہیں کریں گے‘ بلکہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر مجھے ہروانے کی بھی سر توڑ کوشش کریں گے‘ جبکہ والد صاحب تو لندن میں بیٹھے ہوں گے۔ اس لیے جو کچھ ہونے والا ہے‘ مجھے صاف نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نا اہلیاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں‘‘ جیسے والد صاحب کی نا اہلی نے ان کا کیا بگاڑا ہے‘ بلکہ اس سے انہیں عدلیہ کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا پورا پورا موقعہ ملا ہے۔ آپ لندن میں میڈیا سے بات کر رہی تھیں۔
وزیراعظم میں یا زرداری‘ فیصلہ پارٹی کرے گی: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''اکثریت ملی‘ تو وزیراعظم میں یا زرداری‘ فیصلہ پارٹی کرے گی‘‘ اول تو اکثریت ملنا ہی ایک دیوانے کا خواب لگتا ہے‘ کیونکہ دونوں پڑی پارٹیوں نے اپنے اپنے ادوار میں رزقِ حلال جمع کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا‘ جبکہ روزگار کرنے کی کہیں بھی ممانعت نہیں ہے ‘لیکن بیوقوف عوام اس بات کو نہیں سمجھتے اور کرپشن اور لوٹ مار کا شور مچانا شروع کر دیتے ہیں‘ تاہم ظاہر ہے کہ خدانخواستہ‘ اگر اکثریت مل بھی گئی ‘تو وزیراعظم خود زرداری ہی بنیں گے۔ صدر مملکت رہنے کا خون‘ جن کے منہ کو لگ چکا ہے‘ جبکہ وہ پہلے کہہ بھی چکے ہیں کہ بلاول ابھی بچہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ن لیگ دھوکا دیتی ہے اور پی ٹی آئی یو ٹرن لیتی ہے‘‘ جبکہ پیپلز پارٹی صرف دھوکا دیتی ہے اور کبھی یوٹرن نہیں لیتی‘ کیونکہ اسے یوٹرن لینا آتا ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
انتخابات کے بائیکاٹ پر کوئی سوچ بچار نہیں کی گئی: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''انتخابات کے بائیکاٹ پر کوئی سوچ بچار نہیں کی گئی‘‘ کیونکہ ہمارے ہاں سوچ بچار کی قلت ہے ہی نہیں اور جو کرنا ہو سوچ بچار کے بغیر ہی اللہ کا نام لے کر کر گزرتے ہیں؛ البتہ کرنے کے بعد اس پر سوچ بچار ضرورت کرتے ہیں‘ جس کے ہمارے قائد محترم ماہر مانے جاتے ہیں‘ جیسا کہ اس قدر اثاثہ جات سوچ بچار کے بغیر بنا کر اب اس پر ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کر رہے ہیں اور یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ اس سوچ بچار کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ ''این اے 131 سے عمران خان کو بھاری اکثریت سے شکست دوں گا‘‘ اور یہ جو میری آنکھیں ابھی قابو نہیں پا رہی ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لڑکھڑانا ہی نہ شروع کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام ہمارے ساتھ ہیں‘‘ کیونکہ ان احمقوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ہم ان کے ساتھ کیا کچھ کر گزرتے ہیں‘لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب عمران خان انہیں اصل صورت حال بتا کر گمراہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل میں شریک گفتگو تھے۔
ایں گُل ِ دیگر شگفت!
محبی محمود الحسن‘ جو ایک قومی اُردو روزنامے میں کام کرتے ہیں اور جن کا برادم شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ رابطہ رہتا ہے‘ جس سے میں بھی استفادہ کرتا رہتا ہوں‘ نے فون پر بتایا ہے کہ انہیں بتانے میں شاید غلطی ہو گئی ہو‘ جو غزل ان کے نام سے کالم میں چھپ گئی ہے‘ وہ ان کی نہیں‘ بلکہ ذوالفقار تابش کی ہے‘ جو ''سویرا‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ اس پر برخوردار نے غزل کا جو عکس مجھے بھیجا تھا ‘وہ بھی کم از کم پورے صفحے کا بھیجتے کہ اس پر شاعر کا نام بھی ہوتا ہے اور یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی‘ تاہم ذوالفقار تابش بھی ہمارے اتنے ہی قریبی دوست ہیں ‘جیسا کہ فاروقی، نیز جو جذبات اور نیک تمنائیں میں نے اپنے کالم میں فاروقی صاحب کے لیے ظاہر کی تھیں‘ تابش بھی انہیں قبول کر کے شکریہ کا موقع دیں‘ اور مضمون ِ واحد تصور کریں‘ یعنی ایک تیر محبت سے دو شکار ہو گئے۔ بہر حال یہ کالم نگاری ہے‘ تاریخ نویسی نہیں‘ جو مواد ہمیں دستیاب ہوتا ہے ‘اسی کی بنیاد پر گپ شپ کر دیتے ہیں اور اگر کوئی چیز غلط ہو تو دوسرے دن اس کی درستی بھی ہو جاتی ہے۔
اور اب اس ہفتے کی تازہ غزل:
دل کو تنہائی سے آباد کیا
ایک ناشاد کو یوں شاد کیا
کر سکے کچھ نہ تیرے ہوتے ہوئے
نہ ہی کچھ ہم نے تیرے بعد کیا
تیرے ہونے ہی سے مُنکر ہوئے ہم
جانتے بوجھتے الحاد کیا
ہم نے دنیا سے نکالا نہیں کچھ
اور نہ ہی اس میں کچھ ایزاد کیا
سب سے جاہل تھا جو اس شہر میں شخص
ہم نے جا کر اسے استاد کیا
اس قدر ہم نے اچھالی یہ زمیں
آسمانوں کو زمین زاد کیا
ہنستی بستی ہے وہ بستی جس کو
ہم نے اپنے تئیں برباد کیا
اور‘ دل کا یہ قفس توڑ کے اب
خود کو اس قید سے آزاد کیا
باپ مانا کسی بادل کو ظفرؔ
اور کسی پیڑ کو اولاد کیا
آج کامقطع
کیا زبردست آدمی ہو ظفرؔ
عیب کو بھی ہنر بنا دیا ہے