منقول ہے کہ ایک دفعہ ہمارے لیجنڈ اشفاق احمد اٹلی میں ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دھر لیے گئے۔ انہیں جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے پہلے ان کا نام پوچھا۔ اس کے بعد پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ جواب دیا کہ استاد ہوں۔ اس پر جج،جیوری کے ارکان اور حاضرین عدالت ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ عطا الحق قاسمی کا مقدمہ زیر سماعت ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ عمر بھر ایم اے او کالج میں استاد ہی کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ ایک صاحب طرز کالم نگار ہونے کے علاوہ برصغیر کے سب سے بڑے مزاح نگار بھی ہیں۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ مزاح نگاری نا ممکن ہے۔ ہم فقط مزاح نگاری کی نقل اتارتے ہیں۔ لیکن عطا نے اس ناممکن کو بھی ممکن کر کے دکھا دیا۔ عطا پر 27 کروڑ روپے بطور تنخواہ وغیرہ ناجائز وصول کرنے کا الزام ہے۔ ہمارے دوست اور سیکرٹری اطلاعات جناب نواز سکھیرا نے جو حسابات اور حقائق عدالت میں پیش کئے ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ وہ جانیں اور ان کا کام۔ البتہ یہ بات ہر کسی کے علم میں ہے کہ پی ٹی وی میں عطا کی تعیناتی کے آغاز ہی سے دونوں میں ان بن شروع ہو گئی تھی۔ نواز سکھیرا جب اوکاڑہ میں ہمارے اے سی تھے تو خاصے مرنجاں مرنج آدمی ہوا کرتے تھے اور اب بھی میری اور آفتاب اقبال کی ارادتمندی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
چیف صاحب نے اپنے ریمارکس میں فرمایا ہے کہ اگر عطا قاسمی 27 کروڑ روپے واپس کر دیں تو مقدمہ ختم ہو سکتا ہے۔ ان کے سامنے دوسرا آپشن یہ بھی ہے کہ یہ رقم ان کے تعینات کنندہ سابق وزیراعظم سے وصول کی جائے۔ یہ آپشن زیادہ مستحسن ہے کیونکہ رولز کے برخلاف (؟) یہ تعیناتی نواز شریف ہی کے زبانی حکم پر کی گئی تھی اور یہ رقم نواز شریف کے لیے پرِ کاہ جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتی جبکہ عطا یہ رقم اپنا گھر بیچ کر بھی ادا نہیں کر سکتا۔ محاورہ بھی یہی ہے کہ چور کو نہیں اس کی ماں کو مارو جبکہ نواز شریف اس لقب سے پہلے ہی سرفراز ہو چکے ہیں۔
عطا اور نواز شریف کا تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ایک تو دونوں کشمیری ہیں اور دوست ہونے کے علاوہ عطا کے والد محترم ماڈل ٹائون میں شریفوں کے گھر کے سامنے واقع مسجد میں عرصہ دراز تک امامت کے فرائض ادا کرتے رہے ہیں۔ عطا نواز شریف کی حمایت میں ضرور لکھتا ہے لیکن کھل کر تنقید بھی کرتا ہے جبکہ نواز شریف کے اتنا قریبی ہونے کے باوجود اس پر کرپشن کا کوئی جھوٹا الزام بھی نہیں ہے‘ جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی متعدد سرکاری عہدوں پر فائز رہے ہیں‘ جبکہ نواز شریف کے مقربین میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس الزام سے مبرا ہو۔ عطا نادار اور ضرورتمند ادیبوں کی اپنی جیب سے مدد کرنے میں بھی بہت سوں سے آگے آگے رہا ہے۔
البتہ عطا کے پاس بھی ایک آپشن ضرور ہے اور اس ضمن میں وہ یہ واقعہ خود ہی سنایا کرتے ہیں کہ کالج کے پرنسپل دلاور صاحب جو کرکٹ کے بڑے شوقین تھے اپنے کالج کی کرکٹ ٹیم کو ہر سال بھارت میں میچ کھلوانے لے جایا کرتے تھے اور ہمیشہ بغیر ٹکٹ کے سفر کرتے تھے۔ ایک بار وہ پکڑے گئے اور پچاس روپے دے کر گلو خلاصی کروائی۔ اس زمانے میں پچاس روپے ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ واپسی پر سٹاف روم میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب نے کہا ، سر، آپ نے کمال کر دیا، اکٹھے پچاس روپے دے دیئے۔ کوئی دس پندرہ روپے سے شروع ہوتے تو 20، 25 پر فیصلہ ہو جاتا۔ اس پر دلاور صاحب نے کہا تم دس پندرہ کہتے ہو‘ میں تو معافی سے شروع ہوا تھا۔ سو، عطا کے پاس بھی معافی کا آپشن ہے تو سہی لیکن اس کے باوجود پانچ دس کروڑ مزید دینا پڑے تو یہ منظر بھی خاصا دلچسپ ہو گا کہ عطا اپنے گھر اور قیمتی سامان بیچ کر سڑک پر تمبو لگائے بیٹھے ہیں۔ یار لوگ اظہار ہمدردی کے لیے ان کے پاس آ جا رہے ہیں اور وہ حسب معمول قہقہے لگا لگا کر انہیں ساری داستان سنا رہے ہیں۔
سو! یہ رقم اگر نواز شریف سے وصول کی جاتی ہے تو اس پر شاید ہی کوئی رد عمل ظاہر کیا جائے اور اگر معاملہ بصورت دیگر ہو جاتا ہے تو یہ ایک باقاعدہ خبر ہو گی۔ چیف صاحب عوامی مسائل کے حل کے لیے جو اقدامات کر رہے ہیں ان کی شہرت اور پسندیدگی کا وہ عالم ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بڑے سے بڑے سیاسی عہدے کے لیے بھی بلا مقابلہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے خود کہہ دیا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ چنانچہ ان کے نزدیک عطا الحق قاسمی واقعی ایک حل طلب مسئلہ ہے اور وہ عطا کے خلاف ڈگری دے کر ہی اسے حل کر سکتے ہیں تو ہمیں وہ بھی قبول ہو گا ‘کیونکہ چیف صاحب کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتے اور ظاہر ہے کہ عطا یہ رقم ادا نہیں کر سکتا تو اسے جیل ہی بھگتنا ہو گی۔ تو ہم بھی اسے یہی کہیں گے کہ بیٹا چڑھ جا سولی، رام بھلی کرے گا!
مقطع
راستا خود ہی بتاتا ہے، ظفرؔ
راستے میں کب ٹھہرنا چاہیے