"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور شعر و شاعری

عمران خان قد میں لمبے، سیاسی طور پر بونے ہیں : سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''عمران خان قد میں لمبے سیاست میں بونے ہیں‘‘ ۔لیکن ایک عجیب بات ہے کہ بونا ہونے کے باوجود وہ ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ ہم اسے پکڑنے کی کوشش کریں تو بونا ہونے کی وجہ سے وہ پھرتی سے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ بونا ہونے کے بہت سارے فائدے بھی ہیں جن کا پہلے پتا نہیں تھا ‘اور اب سوچ رہے ہیں کہ اگر ہم بھی بونے ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''25 جولائی کو ووٹ کی طاقت سے سازشوں کا خاتمہ کریں گے‘‘، اور اگر نواز شریف اور ان کی اولاد اندر ہو جاتی ہے تو اس کا ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ہمیں پتا چل جائے گا کہ ان سازشوں کا مقصد کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان صرف جھوٹ بولتے ہیں‘‘، جبکہ ہم نے جھوٹ بولنے کے ساتھ مزید ورائٹی بھی پیش کی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ارد گرد نیب کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سب کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہونے والا ہے۔ آپ اگلے روز برکی میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کرنیوالے نشانِ عبرت بنیں گے: چوہدری نثار 
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ''جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کرنے والے نشانِ عبرس بنیں گے‘‘، اور چونکہ ان کے 35 سالہ طویل جھوٹ میں میں بھی شامل تھا اس لیے مجھے اپنی بھی فکردامن گیر ہے‘ حالانکہ میں نے جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہی کھڑی کی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف کی خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی کوشش ناکام ہو گی‘‘، جبکہ ہم میں سے کوئی اپنے آپ کو پانی کا دھلا بھی ثابت نہیں کر سکتا‘ دودھ کا دھلا ہونا تو بہت دور کی بات ہے‘ ویسے بھی دودھ پینے کے لیے ہوتا ہے نہانے کے لیے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نواز شریف سے اب بھی الجھنا نہیں چاہتا‘‘ کیونکہ ان کے ہر کام میں طوعاً و کرہاً میں بھی شامل ہوا کرتا تھا ‘اس لیے الجھنا نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف اب الزام تراشی کے لیے پیادے استعمال کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ ان کے گھڑ سوار تو سارے کے سارے ویسے بھی اندر ہونے والے ہیں۔ آپ اگلے روز وزیر آباد میں نواز شریف کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
تمام رکاوٹوں کے باوجود شیر سب سے آگے ہے: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''تمام رکاوٹوں کے باوجود شیر سب سے آگے ہے‘‘ کیونکہ سارے لوگ اس خطرناک درندے سے بچنے کے لیے مٹی لے کر اس کے پیچھے پیچھے ہیں اور یہ اپنی جان بچانے کے لیے ان سب سے آگے آگے بھاگتا چلا جا رہا ہے کہ آخر جان سب کو پیاری ہوتی ہے۔ تاہم جنگل سے شہر کا رخ کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جھوٹوں کا ورلڈ کپ کرائیں تو عمران فاتح ہوں گے‘‘ بلکہ وہ تو الیکشن کا ورلڈ کپ بھی جیتتا نظر آتا ہے اور یہ بُری عادت اسے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے کے وقت سے ہی پڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''25 جولائی انتشاری سیاست کا آخری دن ہو گا‘‘ کیونکہ تقریباً سارے کے سارے اس وقت تک یا تو جیل پہنچ چکے ہوں گے یا اس کی تیاری کر رہے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان نے پیسوں کے عوض ٹکٹ دے کر دیرینہ کارکنوں کا استحصال کیا‘‘ جبکہ ہم نے اس سلسلے میں نئے لوگوں کو سرفراز کیا تھا کیونکہ پرانے تو ہمارے ٹکٹ ہی واپس کر رہے تھے۔ آپ اگلے روز ناخدا چوک شادباغ میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
بھٹو خاندان کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جا سکتا: عزیز الرحمن چن
صدر پیپلز پارٹی لاہور حاجی عزیز الرحمن چن نے کہا کہ ''بھٹو خاندان کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جا سکتا‘‘ بلکہ اب تو زرداری صاحب کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جنہوں نے دن رات محنت کر کے اور اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے قربانیوں کے ڈھیر لگا کر رکھ دیئے ہیں۔ تاہم ابھی کچھ عرصے تک بھٹو خاندان کی قربانیوں پر لوگوں کو متوجہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اب تو پارٹی میں قربانی دینے والا کوئی ہے ہی نہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خدمت کے انبار لگاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''5 جولائی ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے‘‘ اور پیپلز پارٹی کے جن لوگوں نے اس دن مٹھائیاں تقسیم کی تھیں وہ بھٹو کے سیاسی شہید ہونے پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''اس روز ایک آمر نے شب خون مارا تھا‘‘ حالانکہ یہ کام دن کی روشنی میں بھی کیا جا سکتا تھا۔ آپ اگلے روز مرکزی دفتر بادامی باغ میں یوم سیاہ منا رہے تھے۔
او ر اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
دعا بھولی ہوئی ہو گی کسی کی
فلک پر اک ستارہ فالتو ہے
خدا کشادہ کرے رزق ماہی گیروں کا
ہمارا جال یونہی نائو میں پڑا رہے گا (اظہر فراغ)
بچھڑوں نے جب ملنا نہیں پھر عید کیا تہوار کیا
پھر دیس کیا پردیس کیا‘ پھر دشت کیا گھربار کیا
ساحل پہ میرا منتظر کوئی نہیں ہے جب تو پھر
پتوار کیا منجدھار کیا‘ اِس پار کیا‘ اُس پار کیا (ایمان قیصرانی)
تجھے پکار رہی ہوں یہی میری حد ہے
اب اس سے بڑھ کے بھلا اور بھی کوئی حد ہے
یہ میری آنکھیں جو پتھر کی ہو گئیں بلقیس
یہ انتظار میرے اعتبار کی حد ہے
خود میں کیا دھول اڑی ہے یہ ہمیں جانتے ہیں
کس اذیت سے سمیٹا ہے یہ ملبہ ہم نے
اُسی کی تال میں گم ہے صدی کا سناٹا
وہ ایک گیت ابھی تک جو گنگنایا نہیں
بس ایک بار میرا اعتبار ٹوٹا تھا
پھر اس کے بعد کسی کو بھی آزمایا نہیں
وہ اپنے گرد اٹھاتا ہے روز دیواریں
میں اس کی سمت نیا راستہ بناتی ہوں (بلقیس خان شہر میانوالی)
آج کا مطلع
یقیں تو خیر بڑی بات ہے، گماں بھی نہیں
زمیں کو رو رہے تھے، سر پہ آسماں بھی نہیں

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں