ہمارے بعض تجزیہ کار حضرات کم و بیش یک زبان ہو کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اوّل تو وفاق اور پنجاب میں تحریک ِ ِانصاف کی حکومت بنے گی ہی نہیں اور اگر بن بھی گئی‘ تو اپوزیشن اتنی مضبوط ہے کہ اسے چلنے ہی نہیں دیا جائے گا ‘ نہ ہی کوئی قانون سازی ہو سکے گی‘وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی مضبوط اپوزیشن کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کو خلائی مخلوق نے کامیاب کروایا ہے‘ اگر یہ بات مان بھی لی جائے ‘تو خاطر جمع رہے‘ اگر خلائی مخلوق ‘عمران خان کو الیکشن جتوا سکتی ہے ‘تو اس کی حکومت کو کامیابی سے چلوا بھی سکتی ہے اور اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ خود بخود ہی دور ہوتی چلی جائے گی!
یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ملک کی تین بڑی طاقتیں‘ یعنی ملک کی سب سے بڑی اور فاتح سیاسی جماعت پاکستان تحریک ِ انصاف‘ پاک آرمی اور عدلیہ اس بات پر متفق ہیں کہ ایک تو ملک میں جمہوریت کا سفر جاری رہنا چاہئے‘ اور دوسرے کرپٹ افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یاد رہے کہ عمران خان کو الیکشن میں کامیابی کسی کارکردگی پر نہیں‘ بلکہ ملک کے سب سے بڑے ناسور کرپشن کے خلاف مہم چلانے پر ملی ہے ‘جبکہ نواز لیگ کی شکست کا باعث بھی یہی ہے ‘جس کے مقابلے میں نواز شریف کی مقبولیت بھی نہیں ٹھہر سکی اور اسے تاریخی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
بیشک اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے الیکشن کو چوری شدہ قرار دیا جا رہا ہے‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ میں ہارنے والی ہر جماعت الیکشن پر دھاندلی کا الزام لگاتی رہی ہے‘ جبکہ عمران خان نے صاف کہہ دیا ہے کہ اپوزیشن جس حلقے کے بارے میں کہے گی‘ اسی کی دوبارہ گنتی کروائی جائے گی اور بعض حلقوں میں یہ کام ہو بھی رہا ہے‘ جبکہ یہ وہی الیکشن کمیشن ہے ‘جسے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر تشکیل دیا تھا؛ چنانچہ یہ بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ اس جمہوری سفر کو کسی بد نظمی کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا‘ مولانا فضل الرحمن اس کے خلاف تحریک بھی چلا کر دیکھ لیں۔
صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات بڑی سہولت سے نظر انداز اور فراموش کر دی جاتی ہے کہ شریفوں کے خلاف کرپشن کے درجنوں مقدمات اور انکوائریاں ایسی ہیں‘ جو یا تو ماضی میں دبا لی گئیں اور انہیں کولڈ سٹوریج کی نذر کر دیا گیا یا کئی مقدمات ایسے ہیں‘ جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں اور جن کے نتیجے کے بارے میں خود شریف فیملی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہے اور یہ معاملات اس قدر زیادہ ہیں کہ انجامِ کار شریف فیملی تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائے گی‘ جبکہ کسی ڈیل کے دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔
عدلیہ اور عمران خان بار بار کہہ چکے ہیں کہ لُوٹا ہوا مال واپس کر دیا جائے گا‘ اور یہ کوئی گیدڑ بھبکی نہیں ہے‘ کیونکہ عدلیہ اچھی طرح سے جانتی ہے کہ یہ پیسہ انہوں نے کس طرح وصول کرنا ہے‘ تاہم اس کا ایک سہل الحصول طریقہ بھی ہے۔ منقول ہے کہ ایک بار پنجاب پولیس کا ایک اے ایس آئی کسی کام کے سلسلے میں مصر گیا‘ تو وہاں کے آثار قدیمہ کا عجائب گھر دیکھنے بھی چلا گیا ‘جہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر پریشان تھے کہ انہیں پہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ ان کے زیر مشاہدہ ممّی کی عمر کیا ہے‘ یعنی یہ کتنے سال پرانی ہے۔ اے ایس آئی نے انہیں کہا کہ اسے میرے سپرد کریں اور مجھے تنہائی میں اس کی عمر معلوم کرنے کا موقعہ دیا جائے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا‘ اے ایس آئی اس ممّی کو لے کر ایک علیحدہ کمرے میں چلا گیا اور کوئی آدھے گھنٹے کے بعد آ کر ماہرین سے کہا کہ لکھ لیں‘ اس کی عمر دو ہزار سات سو سال اور چار ماہ ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیسے معلوم کیا ہے ؟تو اے ایس آئی بولا:''یہ خود ہی بک پڑی ہے‘‘۔
سو! ان حضرات سے پیسے نکلوانے کے لیے کسی لمبے چوڑے تردّد کی ضرورت نہیں ہے‘ پنجاب پولیس سے چند اے ایس آئی ادھار لیے جائیں ‘جو ان سے خود ہی اگلوا لیں گے کہ کتنے پیسے ہیں اور آج کل کہاں ہیں!
عمران خان کی طرفداری ہرگز مقصود نہیں ہے‘ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جمہوریت کا یہ سفر جاری رہنا چاہئے‘ اور یہ ایسے ہاتھوں میں چلا گیا ہے کہ اب اس میں کوئی رکاوٹ پڑنے کا احتمال یا خدشہ نہیں ہے اور یہ ہر محب ِوطن پاکستان کی دلی خواہش بھی ہے۔ تحریک ِانصاف نے ہر سیاسی جماعت سے زیادہ ووٹ لیے ہیں‘ اور خود پانچ حلقوں سے کامیاب ہو کر ایک ریکارڈ بھی قائم کیا ہے۔ باقی دونوں بڑی پارٹیاں آزمائی جا چکی ہیں اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس بے مثال کامیابی کو سبوتاژ ہونے دیا جائے گا۔ اس کی حفاظت‘ اللہ میاں سمیت‘ کرنے والے موجود ہیں‘ جن میں یہ کامیابی دلانے والے کروڑوں عوام بھی ہیں۔ اس لیے اس جمہوریت میں کوئی خلل ڈالنا ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘ صرف تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ یعنی ع
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
آج کا مطلع
یہ فردِ جرم ہے مجھ پر کہ اُس سے پیار کرتا ہوں
میں اِس الزام سے فی الحال تو انکار کرتا ہوں