پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی بغل بچہ ہے‘ ساتھ نہیں چل سکتے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ قیدی سابق وزیراعظم میاں نواز شریفنے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی بغل بچہ ہے‘ مزید ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ کیونکہ ہماری طرح ہر پارٹی کسی نہ کسی کا بغل بچہ ہوتی ہے‘ تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ بغل بچہ بنانے والے اسے اپنے شفقت پدری سے یکا یک محروم بھی کر دیتے ہیں اور بغل بچہ اپنے آپ کو یتیم محسوس کرنے لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جعلی مینڈیٹ کے ساتھ آنے والی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کو ہمارا ساتھ دینا چاہئے تھا‘‘ جبکہ اقتدار میں آنے والی ہر جماعت جعلی مینڈیٹ پر ہی اقتدار میں آتی ہے اور ہم سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی اور ن لیگ مزید ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ جبکہ میرے بتائے ہوئے مقدمات سے زرداری صاحب کی طبیعت درست ہونا شروع ہو گئی ہے۔ آپ اگلے روز کمرہ عدالت میں ساتھیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
سادگی مہم سے وزیراعظم عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''سادگی مہم سے وزیراعظم عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتے‘‘ کیوںکہ عوام کو بیوقوف بنانے کے طریقے ہی اور ہوتے ہیں‘ مثلاً :اشتہارات کے ذریعے ترقی کے دعوے وغیرہ اور اگر وزیراعظم ایسا کرنا بھی چاہتے تھے‘ تو انہیں یہ ٹریننگ ہم سے حاصل کرنی چاہئے تھی‘ لیکن عوام صرف وقتی طور پر ہی بیوقوف بنتے ہیں‘ جبکہ بعد میں جلد ہی انہیں عقل آ جاتی ہے اور وہ ساری کسر انتخابات میں نکال لیتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چائے بسکٹ سے بچت نہیں ہوتی‘‘ لیکن کس قدر ظلم کی بات ہے کہ ہمارے قائد کو کھوکھے پر چائے بھی نہیں پینے دی گئی‘ حالانکہ وہ بل اپنی جیب سے ادا کرنے والے تھے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
شوکت عزیز اور معین قریشی کی طرح عمران خان
اینڈ کمپنی والا تجربہ بھی ناکام ہوگا: عابد شیر علی
ن لیگ کے شکست خوردہ سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''شوکت عزیز اور معین قریشی کی طرح عمران خان اینڈ کمپنی والا تجربہ بھی ناکام ہوگا‘‘ لیکن اس لحاظ سے اچھا تھا کہ وہ ہمارے قائد کی طرح کرپشن اور منی لانڈرنگ میں اندر نہیں ہوئے تھے‘ اگرچہ اب شوکت عزیز کے خلاف انکوائری شروع ہو گئی ہے اور امید ہے کہ کچھ عرصے بعد وہ بھی ہمارے قائد کی ہم نشینی کی سعادت حاصل کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''موجودہ حکومت ووٹوں سے نہیں آئی‘‘ کیوںکہ ہماری حکومت بھی ووٹوں سے نہیں آئی تھی‘ جبکہ ہم سے زیادہ اس کا معتبر گواہ اور کون ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مستقبل میں عمران خان اینڈ کمپنی ماضی کا حصہ بن جائے گی‘‘ جبکہ ہمارے کارہائے نمایاں کی وجہ سے تاریخ میں ہمارا ذکر سنہری حروف میں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''موجودہ الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج بنائے گئے‘‘ جبکہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ آپ اگلے روز ایک عید ملن پارٹی میں گفتگو کر رہے تھے۔
اعتزاز احسن کو صدارتی الیکشن میں سپورٹ کروں گا: مشاہد اللہ خان
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ ''اعتزاز احسن کو صدارتی الیکشن میں سپورٹ کروں گا‘‘کیونکہ مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دینا جھک مارنے ہی کے مترادف ہے‘ تو یہ جھک کہیں اور بھی ماری جا سکتی ہے‘ نیز میں اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ووٹ دوں گا‘جو اتنی دیر کے بعد جاگا ہے تو اس کی فرمائش بھی ماننی چاہئے‘ پیشتر اس کے کہ وہ پھر خواب خرگوش کے مزے لینا شروع کر دے۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف کا یہ لیول نہیں کہ وہ اعتزاز احسن پر بات کرنا پسند کریں‘‘ کیونکہ وہ ماشاء اللہ کرپشن کے سزایافتہ قیدی ہیں اور کسی قیدی سے بات کرنا ہی اپنے شایانِ شان سمجھتے ہیں‘ اور یہ جو نواز شریف صاحب کہا ہے کہ میں نے اعتزاز احسن کو سپورٹ کرنے کا بیان اپنی جان بچانے کے لیے کیا ہے‘ تو جان بچانا تو ہر شخص کا حق ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں شعر و شاعری:
سمے نہ دیکھ ابھی گفتگو چلی ہی تو ہے
میں روک دوں گا کسی وقت بھی‘ گھڑی ہی تو ہے
حسین ہوتی ہے مرضی کی موت‘ دیکھ ذرا
یہ آبشار بھی دریا کی خود کشی ہی تو ہے
تُو مجھ کو رونے دے یار‘ شانے پہ ہاتھ مت رکھ
میں گیلے کاغذ کی طرح چھُونے سے پھٹ رہا ہوں (عمیر نجمی)
ریل کا بھاری بوجھ اٹھانا پڑ سکتا ہے
پٹڑی کا کردار نبھانا پڑ سکتا ہے (شعیب زمان)
عجیب منظر ہے خامشی کا
نہ جانے کس کو بُلا رہے ہو
جلے ہوئے ہیں چراغ دن میں
عجب اندھیرے بنا رہے ہو (میثم حیدر)
میں تاحیات پریشان کر دیا گیا تھا
کہ اُس کے ذکر کے دوران کر دیا گیا تھا
پھر اُس کے بعد تعجب نہیں ہوا کسی پر
میں اتنی مرتبہ حیران کر دیا گیا تھا (مژدم خان)
تمہارے ہاتھ نہ آئیں تو رنج مت کرنا
ہم اپنے آپ سے آگے نکل چکے ہیں دوست (توقیر احمد)
ہر طرف بیٹھنے کو جی چاہے
میرے کمرے میں کون آیا تھا (ذکریا شاذ)
میٹھے کنوئیں کے ساتھ یہ سُوکھا ہوا درخت
اپنوں کی یاد آئی یہ احوال دیکھ کر (شہزاد واثق)
آج کا مقطع
لرز رہی تھی مری لو پڑے پڑے ہی‘ ظفرؔ
وہ لے چلے ہیں کہاں سامنے ہوا کے مجھے