"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور شعر و شاعری

نواز شریف اور مریم نواز‘ حکومت کے سیاسی اسیر ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اور مریم نواز ‘حکومت کے سیاسی اسیر ہیں‘‘ بیشک وہ کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور جعلسازی میں سزایافتہ ہوئے ہیں‘ لیکن وہ ہیں تو سیاسی ہی اور اس طرح کے کام کیے بغیر سیاست کیسے ہو سکتی ہے؟ کیونکہ‘ اگر وہ سیاست میں نہ ہوتے‘ تو ایسے کارنامے کیسے سرانجام دے سکتے تھے؟ بلکہ ابھی تو زیادہ تر سیاسی اسیری باقی ہے‘ کیونکہ بے شمار مقدمات اور انکوائریاں ابھی زیر کار ہیں‘ جن کا نتیجہ بھی اسی قسم کا نکلنے والا ہے‘ اس لیے زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ یہ سیاسی اسیری مستقل اور دائمی ہو کر رہ جائے‘ جبکہ شہباز شریف اور دیگر عمائدین بھی اس تنزلی کے مسافر ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا ہو‘ جو اس سعادت سے محروم رہ جائے۔ اس لیے پارٹی میں کسی فارورڈ بلاک بننے کا کوئی خطرہ نہیں ہے ‘کیونکہ اگر کوئی باقی بچا‘ تو ہی فارورڈ بلاک کا حصہ بنے گا۔ آپ پارلیمنٹ سے باہر گفتگو کر رہے تھے۔
پی پی اپوزیشن نہیں‘ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ جماعت ہے: مشاہد اللہ
نواز لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی اپوزیشن نہیں‘ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ جماعت ہے‘‘ اور زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ ہماری جگہ پر قابض ہو گئی ہے‘ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کو ہمارے 30 سالہ تجربے اور وفاداری کا بھی کچھ خیال رکھنا چاہئے تھا‘ تاہم اسٹیبلشمنٹ اسے بھی آزما کر دیکھ لے‘ اسے وہ مزہ نہیں آئے گا‘ جو ہماری تابعداری سے اسے آتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''زرداری مقدمات کے خاتمے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے حامی ہیں‘‘ جبکہ ہم عادتاً ہی اس کے حامی تھے اور اپنے خلاف مقدمات کا بھی خود خیال رکھ لیا کرتے تھے‘ جبکہ پیپلز پارٹی بھی صرف اور صرف فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر اتحاد ہوتا‘ تو اپوزیشن کا صدر بنتا‘‘ اگرچہ دوسرے امیدواروں کے ووٹ ملا کر بھی اتنے نہیں بنتے تھے‘ بلکہ چالیس پچاس کا فرق تھا۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عارف علوی کی کامیابی کا سہرا زرداری کے سر ہے: سعد رفیق
سابق وفاقی وزیر اور حالیہ الیکشن میں شکست خوردہ خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''عارف علوی کی کامیابی کا سہرا زرداری کے سر ہے‘‘ جبکہ ہمارا امیدوار سہرے کو ترستا ہی رہ گیا ‘کیونکہ کئی مسلم لیگیوں نے بھی انہیں ووٹ نہیں دیئے؛ حالانکہ مولانا فضل الرحمن جیسی شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں اور روز روز کوئی پیدا ہو بھی کہاں سکتا ہے؟ بلکہ ایک بار بھی بڑی مشکل سے ہی پیدا ہوتا ہے‘ جبکہ وہ اپنی طرز کا واحد اور آخری ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''زرداری کو معلوم تھا کہ اعتزاز متنازعہ شخصیت ہیں‘‘ جبکہ مولانا ہر ووٹر کی آنکھ کا تارہ تھے‘ لیکن وہ روشنی کرنے کی بجائے آنکھوں میں کھٹک رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''پی پی فرینڈلی اپوزیشن ہے‘‘ اور یہ اس وقت سے ہے جب ہم اور پی پی آپس میں فرینڈلی اپوزیشن ہوا کرتے تھے اور دونوں کا کام بڑے آسانی سے چلا کرتا تھا۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی آمد کے موقعہ پر میڈیاسے گفتگو کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی کی مجبوریاں معلوم نہیں‘ نظام 
میں احتجاجاً شامل ہیں: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنماا ور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کی مجبوریاں معلوم نہیں‘ نظام میں احتجاجاً شامل ہیں‘‘ جبکہ ہماری مجبوری تایا جان کی ہدایات ہیں‘ جنہوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور الیکشن میں منہ کی کھانے کے بعد اب پے در پے شکست کھا رہے ہیں اور عبرت کا نمونہ بنے ہوئے ہیں‘ جبکہ تایا جان اب بھی ہمیں اُلٹی پٹیاں ہی پڑھاتے رہتے ہیں‘ جو ابا جان کو زبانی یاد بھی کرنا پڑتی ہیں اور نظام میں احتجاجاً بھی انہی کی ہدایات کے تحت شامل ہیں‘ جبکہ وہ خود تو جیل میں ملنے والی مراعات سے عیاشی کر رہے ہیں اور ہم ادھر طعن و تشنیع کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور امید نہیں تھی کہ یہ بزرگ ہمیں ایک طرح سے لے کر ہی بیٹھ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''انہیں کمیشن سے بھاگنے نہیں دیں گے‘‘ بلکہ خود بھاگ بھاگ کر ہماری مت ماری گئی ہے۔ آپ اگلے روز اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
ہے کوئی سخی اِس کی طرف دیکھنے والا
یہ ہاتھ بڑی دیر سے پھیلایا ہوا ہے
حصہ ہے کسی اور کا اس کارِ زیاں میں
سرمایہ کسی اور کا لگوایا ہوا ہے (فیصل عجمی)
گرچہ کمرے میں اندھیرا تھا بہت
میں نے ہونٹوں سے اُسے دیکھا بہت
کب تلک آباد رہتیں کشتیاں
مجھ میں دریا کم تھے اور صحرا بہت
مجھ پہ کوئی رنگ و روغن کیا کرے
کام کم ہوتا ہے اور خرچہ بہت (سعید شارق)
میں جدھر ہوں اُدھر نہیں ہوتا
لگتا ہے ہوں‘ مگر نہیں ہوتا
جب سے تم ہم سفر نہیں میرے
مجھ سے کوئی سفر نہیں ہوتا
ہم سے نا معتبر نہ ہوتے تو
کوئی بھی معتبر نہیں ہوتا
روبرو حیران ہیں دونوں بڑی ہی دیر سے
آئنے کے اس طرف میں اور آئینے میں تم
ایسا بھی کیا کہ نشانے پہ مسلسل ہوں ترے
اے مری جان کے دشمن‘ تجھے پانا ہی تو ہے(نعیم ضرار)
آج کا مطلع
مہربانی نہ عنایت کے لیے دیکھتا ہوں
دیکھ سکنے کی اجازت کے لیے دیکھتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں