"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور شعر و شاعری

عدلیہ تحریک میں شامل ہونا غلطی تھی: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''عدلیہ تحریک میں شامل ہونا غلطی تھی‘‘ کیونکہ اس وقت سے ہی عدلیہ شیر ہو گئی ہے اور ہمارے خلاف فیصلے دے رہی ہے، ورنہ آج تک کبھی ایسا نہ ہوا تھا جبکہ جو خدمت ہم نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی کی تھی، انہیں اس سے ہی کافی عبرت حاصل کر لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے نواز شریف کو تجویز دی تھی کہ ایک بار سوچ لیں ‘‘ لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا حالانکہ میں نے صرف ایک بار سوچنے کو کہا تھا جس پر انہوں نے کہا کہ میں نے سوچنے کا تکلف کبھی گوارہ نہیں کیا کیا اور آج تک سارے کام سوچے سمجھے بغیر ہی کرتا رہا ہوں، صرف منی ٹریل والا بیان سوچ سمجھ کر دیا تھا جو میرے گلے ہی پڑ گیا جس کے بعد میں صدق دل سے ہی کام سے توبہ کر لی کیونکہ سوچنا میری طبع ہی کے خلاف ہے۔ ہیں جی؟ آپ اگلے روز سعید کرمانی کے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
کسی کا باپ بھی دینی مدرسوں کا نصاب تبدیل نہیں کر سکتا: فضل الرحمن
شکست خوردہ صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کسی کا باپ بھی دینی مدرسوں کا نصاب تبدیل نہیں کر سکتا‘‘ لیکن یہاں لوگ باپ کو زحمت ہی نہیں دیتے اور جو کچھ کرنا ہو خود ہی کر لیتے ہیں، اور ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں جبکہ کہ میرا خیال تھا کہ کسی کا باپ بھی مجھے صدر مملکت بننے سے نہیں روک سکتا، لیکن یار لوگوں نے اپنے باپ کو بیچ میں ڈالے بغیر ہی میرا تیا پانچہ کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ''مغربی تہذیب مسلط کرنے والوں کے خلاف جہاد فرض سمجھتا ہوں‘‘ جبکہ میرے خوف سے ہی عمران خان نے کوٹ پتلون چھوڑ کر شلوار کُرتا پہننا شروع کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
الیکشن جیتنے والوں کو آج تک اپنی جیت کا یقین نہیں آ رہا: سراج الحق
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ الیکشن جیتنے والوں کو آج تک اپنی جیت کا یقین نہیں آ رہا اور وہ اس بے یقینی میں ہی وزارتیں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ سارے کام کرتے چلے جا رہے ہیں، حالانکہ میں نے کئی دفعہ انہیں یقین دلانے کی سر توڑ کوشش کی ہے کہ آپ واقعی جیت چکے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح اب بھی انہیں میری بات پر اعتبار نہیں آ رہا۔ انہوں نے کہا کہ ''الیکشن کمیشن نے پری پول اور پوسٹ پول رگنگ کو روکنے میں مجرمانہ غفلت کی‘‘ حالانکہ وہ دوستانہ غفلت بھی روا رکھ سکتے تھے کیونکہ میرا اور بھی اعتراض رگنگ روکنے کی بجائے لفظ مجرمانہ پر ہے کیونکہ غفلت تو آدمی سے ہو ہی جاتی ہے کہ آخر خطا کا پتلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہارنے والے پریشان ہیں کہ وہ ہار کیسے گئے‘‘ حالانکہ ان کے ہارنے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں دوٹ کم پڑے۔ آپ اگلے روز سرگودھا میں احتجاجی ارکان سے خطاب کر رہے تھے۔
لاہور شہر مسلم لیگ ن کا قلعہ تھا اور رہے گا: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''لاہور شہر مسلم لیگ ن کا قلعہ تھا اور رہے گا‘‘ جبکہ ہم اسی قلعے میں اپنے آپ کو محصور اور محفوظ سمجھتے ہیں تا کہ مخالفین حملہ آور ہو کر ہمارے کشتوں کے پشتے نہ لگا دیں جبکہ سارے الیکشنوں میں وہ ہمارے ساتھ یہی سلوک کر چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''این اے 124 میں ہمیں بھاری کامیابی حاصل ہوئی‘‘ اگرچہ ہم ہماری کامیابی کا بوجھ سہار ہی نہیں سکتے کیونکہ ہلکی کامیابی کے بوجھ سے ہی ہم کُڑے ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس لیے کامیابی کے حق میں بیان دینا ہی کافی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ضمنی انتخاب میں ہر ڈبے سے شیر ہی نکلے گا‘‘ اور ریٹرننگ افسر وغیرہ اپنے عملے سمیت چیخیں مارتے ہوئے بھاگ جائیں گے، حالانکہ یہ کاغذی شیر ہے اور اس سے ڈرنے کی کسی کو ضرورت نہیں ہے اور یہ حالیہ انتخابات میں ثابت بھی ہو چکا ہے، انہوں نے کہا کہ ''شاہد خاقان عباسی نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیں‘‘ جبکہ ابھی زیادہ مشکل وقت تو آنے والا ہے۔ آپ ماڈل ٹائون میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
تو خواب اگر ہے تری تدفین کہاں ہو
دل میں تو کسی اور کو دفنایا ہوا ہے (فیصل عجمی)
یہ بے نیازی ترا ہے، مرا حوالہ نہیں
زمین والا ہوں میں، آسمان والا نہیں
تو آ پڑا ہے مجھے تجھ سے اک ضروری کام
مگر یہ کام محبت سے ہونے والا نہیں
ہماری دوستی اور دشمنی محبت تھی
ہمیں آپس میں تقریباً محبت تھی
چھتوں پر چھت نہیں تھی، چاند ہوتے تھے
گلی میں کس قدر روشن محبت تھی
تو نے دنیا خراب کرنی تھی
کیا ہوا، کتنے لوگ رہ گئے ہیں (احمد عطاء اللہ)
میرے ہونے کا نہیں تیرے سوا کوئی جواز
بن ترے ہونا بھی اک رسم نبھانا ہی تو ہے
محبتوں کا ہے دریا رواں دواں جب تک
کنارے دونوں یہ آپس میں آ نہیں ملتے
کتنی آنکھیں تھیں، ساری میری تھیں
جتنے چہرے تھے سب تمہارے تھے
یہیں پر رہ گئی ہیں تیری یادیں
مرے وارے نیارے ہو گئے ہیں (نعیم ضرار)
گونج اٹھتی ہیں میری شریانیں 
اس کو اِتنا پکارتا ہوں میں (نعیم رضا بھٹی)
آج کا مطلع
کئی دن سے ترے ہونے کی سرشاری میں رہتا ہوں
میں کیا بتلاؤں آسانی کہ دشواری میں رہتا ہوں

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں