کراچی سے آصف فرخی کے کتابی سلسلے ''دنیا زاد‘‘ کا تازہ شمارہ شائع ہو گیا ہے‘ جسے ''قافلۂ اعتبار‘‘ کا نام دیا گیا ہے‘ جو حال ہی میں انتقال کر جانے والی تین اہم ادبی ہستیوں‘ ساقی فاروقی‘ محمد عمر میمن اور مشتاق احمد یوسفی کی یاد منانے کے سلسلے میں ہے‘ جو ایک طرح سے خاص نمبر بن گیا ہے۔ ساقی فاروقی پر ناصر عباس نیّر اور آصف فرخی کے مضامین ہیں‘ جبکہ محمد عمر میمن پر نیّر مسعود‘ جن کا تھوڑا عرصہ پہلے خود انتقال ہو گیا ‘ محمد سلیم الرحمن‘ محمد حمید شاہد‘ ڈاکٹر نجیبہ عارف اور سید سعید نقوی کے مضامین ہیں اور محمد عمر میمن کے قلم سے مار فیل پروست کے '' آخری تین دن‘‘ کے عنوان سے لوسیاں بیتاں کور کے مضمون کا ترجمہ‘ مشتاق احمد یوسفی پر ڈاکٹر اسلم فرخی اور آصف فرخی کا مضمون‘ جو اُن سے انٹرویو ہے‘ جبکہ رسالے کے آخر میں آصف فرخی کے قلم سے ناول نگار سلیم احمد کا تعزیت نامہ ہے۔ اس کے علاوہ فلپ روتھ کے قلم سے میلان کنڈیرا سے مکالمہ ہے۔حصہ مضامین میں محمد حمید شاہد‘ انیس اشفاق اور تمثال مسعود نے معاصر ادب کا جائزہ لیا ہے‘ جو اپنی جگہ پر اہمیت رکھتا ہے۔ قافلۂ اعتبار کے عنوان سے حسن منظر کا مضمون ہے۔ ان کے علاوہ سلمیٰ اعوان‘ کے قلم سے ''سپین کا گارسیا لورکا: ایک توانا انقلابی آواز‘‘ پر مضمون ہے‘ جس میں سفرنامے کا ذائقہ بھی دستیاب ہے۔ ان کے علاوہ حصۂ نثر میں مسعود اشعر کے دو افسانے اور فہمیدہ ریاض کا مضمون ''بیماری کی تحریریں‘‘ اور ''لملیشور‘‘ کے عنوان سے مشرف عالم ذوقی کا مضمون ہے اور ''محفل ‘‘کے عنوان سے آصف فرخی کا ابتدایہ ہے‘ جبکہ رضیہ فصیح احمد‘ سید سعید نقوی کی دو کہانیاں‘ امجد شیخ کا طویل مختصر افسانہ‘ عمر فرحت کے قلم سے خالد جاوید سے گفتگو‘ نجم الدین احمد کے قلم سے ناول نگار جے ایم کوئٹزی پر مضمون ‘جو ترجمہ ہے۔نظموں میں زہرا نگاہ‘ فاطمہ حسن‘ شہلا نقوی‘ توصیف خواجہ‘ فیصل ریحان‘ ارفع اعزازی‘ علی سعید‘ کشور ناہید اور اُسامہ امیر ہیں‘ جبکہ محمد سلیم الرحمن‘ تنویر انجم‘ انعام ندیم اور مصطفی ارباب کی طرف سے انگریزی‘ پنجابی اور سندھی نظموں کے تراجم سے آغاز میں افضال احمد سید نے شبلی نعمانی کے کچھ فارسی اشعار کا اُردو ترجمہ پیش کیا ہے۔غزل میں کاشف حسین غائرؔ کی چھ‘ کاشف مجید کی دو‘ اور سعید شارق کی پانچ غزلیں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اشعار دیکھیے:
دھڑکن کو اپنے دل سے جدا کر رہی ہوں میں
یہ خود کشی نہیں ہے مگر مر رہی ہوں میں
جیت کر تُم ہو اک ہجوم میں گُم
اور میں اپنی ہار میں تنہا (فاطمہ حسن)
لوگ اب دھوپ کی دستک پہ کہاں جاگتے ہیں
صُبح اس شہر میں بیکار ہی آ جاتی ہے
کہیں جانے نہیں دیتی مجھے وحشت میری
مجھ سے ٹکرانے کو دیوار ہی آ جاتی ہے
نکل پڑا ہے کوئی سر خریدنے کے لیے
کہ جتنے پیسوں میں دستار تک نہیں آتی
ترے بھی دل میں محبت کی آگ روشن ہے
تو آنچ کیوں لب و رخسار تک نہیں آتی
میں گھر تک آتے ہوئے روز ٹوٹ جاتا ہوں
یہ وہ خبر ہے جو اخبار تک نہیں آتی
یار لوگوں نے یونہی شور مچا رکھا ہے
ورنہ کچھ عشق میں نقصان نہیں ہے اتنا
گھر بنانے کا جو میں سوچ کے رہ جاتا ہوں
گھر بنانا کوئی آسان نہیں ہے اتنا
دیکھ تو اس کباڑ خانے میں
کوئی شے قیمتی نکل آئے
بات تو جب ہے اتنے لوگوں میں
ایک بھی آدمی نکل آئے
میں اس بستی میں بے نام و نشاں ہوں
بجز اس کے نشانی کیا بتائوں
ایسا سنّاٹا ہے باہر کہ اسے دیکھنے کو
شور سارا مرے اندر سے نکل آیا ہے (کاشف حسین غائر)
اُسے درکار تھے کچھ رونے والے
ہنسی ساری گئی بیکار میری
محبت ہے خُدا سے اور تجھ سے
وہ در ہے اور تُو دیوار میری (کاشف مجید)
پڑے ہوئے تھے میرے پیچھے کب سے ہم دونوں
سو‘ مجھ کو مار دیا گیا ہو گا اُس نے یا میں نے
خبر نہیں ہے کہ اب پہلے کون بجھتا ہے
جلا دیا تھا سر شام ہی دیا میں نے
خامشی تھی سو بس اک آن میں گھر آ پہنچی
بھاگتا رہ گیا آواز کی رفتار سے میں
کوئی کتنا ہی تھپکتا رہے مجھ کو‘ شارقؔ
جاگ جاتا ہوں کسی خواب کی جھنکار سے میں
ہر مسافر کا ہم سفر ہونا
کتنا مشکل ہے رہگزر ہونا
دوبارہ ہجر سے دو چار کیسے ہو گیا ہوں
میں سویا ہی نہیں‘ بیدار کیسے ہو گیا ہوں
یہ کیسا ہل چلایا ہے مرے سینے میں تُو نے
میں ایسا نرم اور ہموار کیسے ہو گیا ہوں
ذرا سی دیر پہلے دھوپ مجھ پر ہنس رہی تھی
ترے آتے ہی سایہ دار کیسے ہو گیا ہوں (سعید شارق)
آج کا مقطع
بِین جب سے بجا رہا ہوں‘ ظفرؔ
میرے چاروں طرف ہے کیا کیا بھینس