ریلوے کا نعرہ 'آرام حرام‘ ہے: شیخ رشید احمد
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ریلوے کا نعرہ آرام حرام ہے‘‘ اس کے علاوہ ہمارے لئے ہر چیز حلال ہے ‘جس سے رفتہ رفتہ استفادہ کرتے رہیں گے‘ جبکہ اس نعرے کا تعلق اور اطلاق مسافروں پر بھی ہوگا‘ جس کے لیے ان کی نشستیں ہی ایسی بنائی جائیں گی کہ وہ ان پر آرام سے بیٹھ ہی نہ سکیں‘ بلکہ بعض نشستوں پر کیل گاڑنے کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے‘ تاکہ یہ نعرہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو جائے‘ جبکہ جو چیزیں ہمارے لیے حلال ہوں گی‘ ان کی فہرست بنانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ '' دس ہزار افراد کو میرٹ پر نوکریاں دیں گے‘‘ جبکہ ان اُمید واروں کو آرٹیکل 63,62 پر بھی پورا اُترنا ہوگا‘ جس پر شاید ہی کوئی اُمیدوار پورا اُترے‘ تاہم میرٹ کے بغیر کوئی کام نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''کراچی میں لوکل ٹرین چلے گی‘‘ جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ خود چلے گی۔ ہم نہیں چلائیں گے۔ آپ اگلے روز ‘لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
تھر کے عوام کو مُشکل گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''تھر کے عوام کو مُشکل گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘ اگرچہ یہ مشکل گھڑی اُن پر سالہا سال سے آئی ہوئی ہے‘ لیکن ہمارا خیال تھا کہ یہ بھوک اور پیاس سے ویسے ہی ختم ہو جائیں گے‘ جبکہ ویسے بھی ہم اپنے اصل کام میں ہی اس قدر مصروف تھے کہ انہیں اللہ ہی کے سپرد کرنا پڑا‘ کیونکہ زندگی ا ور موت اُسی کے اختیار میں ہے‘ اس لیے کچھ لوگ اب بھی زندہ باقی رہ گئے ہیں‘ جن کے انتہائی ڈھیٹ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ''تھر کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے‘‘ اور یہ ویسی ہی ترجیحات ہوں گی ‘جو ن لیگ نے بنا رکھی تھیں اور جن سے ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ورکروںسے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومتی اقتصادی پالیسیوں نے عوام کی چیخیں نکال دیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور رکن قومی اسمبلی چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت کی اقتصادی پالیسیوں نے عوام کی چیخیں نکال دیں‘‘ اور ہمارے لیے یہ باعث ِ حیرت بھی ہے‘ کیونکہ ہم نے تو عوام کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا تھا کہ وہ چیخ ہی مار سکیں‘ لیکن اب جو چیخیں مار رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہمارے ساتھ فراڈ کر رہے ہیں‘ سو ایسے فراڈیئے عوام کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 100دن میں ریلیف دینے والوں نے مہنگائی کا پہاڑ گرا دیا ہے‘‘ اور ہماری سمجھ میں ابھی تک نہیں آ رہا کہ حکومت یہ پہاڑ کہاں سے اور کیسے لے آئی ہے اور اس نے اسے عوام پر گرایا کیسے ہے ‘کیونکہ پہاڑ کو اٹھا کر ہی گرانا پڑتا ہے۔ آپ نارووال میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مینڈیٹ چوری سے بننے والی حکومت ڈکٹیٹر بن گئی: فضل الرحمن
جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''مینڈیٹ چوری سے بننے والی حکومت ڈکٹیٹر بن گئی‘‘ جس سے این آر او کا مسئلہ حل ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ پہلا اور مشہور و معروف این آر او ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں ہی ہوا تھا‘ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ این آر او ڈکٹیٹر ہی کے دور میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے؛ چنانچہ میں نے اپنی حالیہ ملاقات میں میاں صاحب کو یہی خوشخبری سنائی ہے‘ جس پر وہ باغ باغ ہو گئے اور میرے منہ میں ڈالنے کے لیے گھی شکر فراہم کرنے کا آرڈر دے دیا گیا تھا‘ جبکہ موصوف نے خود ہی کہہ رکھا ہے کہ بُرے دنوں کے بعد اچھے دن بھی آتے ہیں‘ لیکن خدشہ یہ بھی ہے کہ نیب کی اپیل پر عدالت کہیں ہمارے رنگ میں بھنگ ہی نہ ڈال دے اور حیرت کی بات ہے کہ بھنگ اب اداروں کے بھی دائرہ اختیار میں چلی گئی ہے کہ جس کے رنگ میں چاہے ڈال دیں؛ چنانچہ میرا خیال ہے کہ ملک میں موجود ساری کی ساری بھنگ برآمد کر دینی چاہیے ‘تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
خوابوں اور خیالوں کی دُنیا سے نکل آیا ہوں
وحشت ختم ہوئی ہے تو صحرا سے نکل آیا ہوں
مجھے ڈبونے سے پانی نے کر دی ہے معذوری
شرمندہ سا ہو کر میں دریا سے نکل آیا ہوں
بے سمتی کا کوئی سفر درپیش ہوا ہے ایسا
جس کی خاطر میں اپنے اعضاء سے نکل آیا ہوں
اپنے من مرضی کی ہوتی ہے اپنی سرشاری
اسی لیے میں اُس کے جا بے جا سے نکل آیا ہوں
وہ بیسود محبت ہو یا مُفت کی خاطر داری
جُوں توں کر کے سب ایسی اشیاء سے نکل آیا ہوں
سانس تو لینا مشکل تھا پہلے ہی لیکن اب میں
اُس کی طرف سے آتی ہوئی ہوا سے نکل آیا ہوں
توڑا ہے جھوٹی خوشیوں کا الگ سے تانا بانا
اور‘ اُداسی کے جنگل میں جُدا سے نکل آیا ہوں
دوست خود ان سے بہتر ہی کر سکتے ہوں گے سب کچھ
یہی سوچ کر انبوہ اعداء سے نکل آیا ہوں
ایک خرابی ہے جس میں داخل ہوں جانِ ظفر میں
اور‘ یہ پتا نہیں چلتا کیا کیا سے نکل آیا ہوں
آج کا مطلع
وہی منظر برف برسنے کے‘ وہی گھڑیاں دھوپ نکلنے کی
سبھی سلسلہ وار سبیلیں ہیں ترے موسم راز میں ڈھلنے کی