عمران خان بتائیں ‘این آر او کس نے مانگا: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان بتائیں این آر او کس نے مانگا‘‘ اور یہ اس لئے ضروری ہے کہ پارٹی کے متعدد افراد یہ دعویٰ کر رہے ہیں‘ تا کہ انعام و اکرام میں حصے دار بن سکیں‘ لیکن اب ہمارے پاس ''کم از کم پاکستان میں‘اتنے پیسے نہیں ہیں کہ سب کو اکاموڈیٹ کرسکیں‘‘ اس لئے ضروری ہے کہ عمران خان ان جان نثاروں کے نام بتا دیں‘ تا کہ ہمیں زیادہ خرچہ برداشت نہ کرنا پڑے‘ جبکہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد سے ہم کافی کفایت شعار ہوچکے ہیں کہ کفایت شعاری ویسے بھی بہت اچھی چیز ہے۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''اے پی سے بارے مولانا فضل الرحمن کی باتیں پبلک نہیں کرنا چاہتا‘‘ کیونکہ مولانا کے حوالے سے اور بھی بہت سی باتیں ہیں ‘جو پبلک کرنے والی نہیں ؛ اگرچہ زیادہ تر لوگ ان سے واقف بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کو ہم کدھر لے کر جانا چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ ہم نے پاکستان کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا تھا کہ کہیں جاسکے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں گفتگو کر رہے تھے۔
کرپشن کرنے والوں کے لئے پنجاب میں کوئی جگہ نہیں:بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''کرپشن کرنے والوں کے لئے پنجاب میں کوئی جگہ نہیں‘‘ اس لئے انہیں چاہئے کہ دوسرے صوبوں میں جا کر طبع آزمائی کریں‘ جبکہ دوسرے صوبوں کے کرپشن کرنے والے حضرات پنجاب میں آکر اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں‘ اس لئے آب وہوا کی بھی تبدیلی ہوگی اور کرپشن میں ایک طرح کی ویرانگی بھی پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ''ترقی اور تبدیلی کے سفر میں بیورو کریسی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں گے‘‘ جیسا کہ بیورو کریسی ہماری پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لگاتار فائدہ اٹھا رہی ہے۔ آئی جی جان محمد جس کی تازہ مثال ہیں اور جس سے ہم کافی عبرت بھی حاصل کر رہے ہیں اور مزید بھی کریں گے‘ کیونکہ عبرت تو جتنی زیادہ حاصل کی جاسکے کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پنجاب میں بہترین ٹیم لا رہے ہیں‘‘ اگرچہ پہلے والی ٹیم بھی چندے آفتاب چندے ماہتاب ہے ‘جس کے کارنامے آئے دن آپ کے نوٹس میں آتے ہی رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
آئی جی کو درخواست دی‘ 28 فون کئے لیکن مسئلہ حل نہ ہوگا: اعظم سواتی
وفاقی وزیراعظم سواتی نے کہا ہے کہ ''آئی جی کو درخواست دی‘ 28 فون کئے‘ لیکن مسئلہ حل نہ ہوا‘‘ اگرچہ دو چار فون ہی کافی تھے‘ لیکن میں نے سوچا‘ سرکاری فون ہے اور میں بھی سرکاری آدمی ہوں‘ بلکہ میں تو اور بھی فون کرنے والا تھا‘ لیکن دیگر مصروفیات کی وجہ سے ایسا نہ کرسکا اور اس پر خرچہ اس لئے نہیں آرہا تھا کہ آئی جی میرا فون اٹینڈ ہی نہیں کر رہے تھے‘ جس کی وجہ غالباً یہی تھی کہ کفایت شعاری سے کام لیا جائے اور فون کا خرچہ کم سے کم کیا جائے اور میں ان کے اس جذبے کی داد دیتا ہوں اور جس کی تعریف میں نے وزیراعظم صاحب کو فون کرتے ہوئے بھی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے شہر یار آفریدی سے بھی رابطہ کیا‘‘ جن کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ وہ پہلے ہی آئی جی مذکورہ سے کھار کھائے بیٹھے تھے‘ جو انہیں قانون پر چھاپے مارنے سے منع کرتے تھے اور وہ باز نہیں آتے تھے‘ کیونکہ آدمی کو مستقل مزاج ہونا چاہئے۔ آپ اگلے روز ٹی وی پروگرام ''دنیا کامران خان کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان پریس کانفرنس میں کس کو ڈراتے ہیں:حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''عمران خان پریس کانفرنس میں کس کو ڈراتے ہیں‘‘ کیونکہ ہم تو پہلے ہی اتنے ڈرے ہوئے ہیں‘ ہمیں مزید ڈرانے کی کیا ضرورت ہے‘‘ بلکہ اصل اعتراض ہمیں پریس کانفرنس میں ڈرانے پر ہے‘ جبکہ دیگر ہزار ہا طریقے ایسے موجود ہیں‘ جن سے ہمیں ڈرایا جاسکتا ہے‘ بلکہ ہمیں تو خواب بھی نہایت ڈرائونے آرہے ہیں‘ جن میں ہم سب تایا جان کے ساتھ نظر آتے ہیں ‘جہاں ہمیں سہولیات بھی مہیا نہیں کی جاتیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نیب اور منشا بم میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘ کیونکہ نیب بھی ہم پر بم کی طرح ہی گرتی ہے‘ جس سے بہت بڑا گڑھا بھی پڑ جاتا ہے اور حکومت اسے پر بھی نہیں کرواتی۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کلین بننے کی جعلی کوشش نہ کریں‘‘ کیونکہ یہ کام ہم ہی کرسکتے ہیں‘ بلکہ اب بھی‘ مقدمات اور انکوائریوں کے باوجود کلین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؛ اگرچہ یہ خاصی مضحکہ خیز بات ہے ۔آپ اگلے روز لاہور میں نیب پر کڑی تنقید کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ایبٹ آباد سے جدید لب و لہجہ کے غزل گو پرویز ساحرؔ کے حوالے سے یہ اطلاع کہ ان کا مجموعہ بہ عنوان آئینہ چراغ اور ستارہ‘ بہت جلد اشاعت پذیر ہوگا۔ نمونہ کلام کے طور پر ان کے چند شعر ملاحظہ ہوں:
کوئی بھی شخص کبھی روک نہیں سکتا اسے
وقت دیوار کے اندر سے گزر جاتا ہے
اتر نہ پائی نامراد میرے دل سے اُس کی یاد
عجیب تہہ تھی برف کی چٹان پر جمی رہی
وہ یوں ہی ٹوٹ کے ٹکڑے نہیں ہوا‘ ساحرؔ
میں اس چٹان کو دکھڑا سنایا کرتا تھا
اک زلف تھی کہ لوٹ کے شانے پہ گئی
اک سانپ تھا کہ پھر سے خزانے پہ آ گیا
جب اس نے اک نگہِ سرسری ادھر ڈالی
تو سب ستارے خود اپنی جگہ بدلنے لگے
آج کا مقطع
ظفرؔ جو ہو نہیں سکتا اسی کے درپے ہو
فضول بھاگ رہے ہو سراب کے پیچھے