اپوزیشن کو ہر صورت متحد رکھا جائے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کو ہر صورت متحد رکھا جائے‘‘ اور میں نے اے پی سی میں نہ جانے کا فیصلہ‘ اسی لیے کیا ہے‘ تا کہ اپوزیشن تسلّی اور دلجمعی سے متحد رہ سکے‘ جس کا ایک نقصان البتہ ضرور ہوگا کہ برادرم زرداری سے ملاقات نہیں ہو سکے گی ‘جبکہ میں اور زرداری صاحب این آر او کے امکانات کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں‘ کیونکہ اگر یہ نہ ہوا تو رفتہ رفتہ ساری کی ساری اپوزیشن اپنے اپنے انجام کو پہنچ جائے گی ‘کیونکہ ان سب کی کارگزاریاں ایک جیسی ہی تھیں اور کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ عدلیہ یک بیک اس قدر ایکٹو ہو جائے گی اور گڑے مُردے بھی اکھاڑے جائیں گے اور پرانے کیس جو ہم نے محض ملکی مفاد میں بند یا ختم کر دیئے تھے‘ انہیں پھر سے زندہ کر دیا جائے گا‘ جو کہ صریحاً شرک ہے‘ کیونکہ مردوں کو بروز قیامت اللہ میاں ہی زندہ کریں گے۔ اس لیے نیب اگر اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتی ‘تو اس قسم کی مُشرکانہ کارروائیوں سے گریز کرے۔ آپ اگلے روز ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ن لیگ حکومت کو چھ ماہ دینا چاہتی ہے: رانا ثناء اللہ
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''ن لیگ حکومت کو چھ ماہ دینا چاہتی ہے‘‘ بلکہ فیصلہ تو یہ ہوا تھا کہ حکومت کو صرف تین ماہ دینے چاہئیں ‘جبکہ میری سفارش پر یہ مدت بڑھا کر چھ ماہ کر دی گئی‘ جس پر حکومت کے اہم ارکان نے اس جذبۂ خیر سگالی پر مجھے شکریہ کے فون بھی کیے ہیں ‘کیونکہ ہماری طرح حکومت بھی احسان فراموش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت 3 ماہ سے زیادہ نکالتی نظر نہیں آتی‘‘ اور اس طرح میری فیاضی سے بھی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتی ‘جو کہ نہایت افسوس کی بات ہے؛ چنانچہ میری خواہش ہے کہ چلو چھ ماہ نہ سہی‘ حکومت کم از کم چار ماہ تو نکال لے‘ تا کہ اس وقت تک ہم خود حکومت میں آنے کی پوری پوری تیاری کر لیں‘ کیونکہ این آر او کے وجود میں آتے ہی حالات فوری طور پر اور یکسر بدل جائیں گے‘ جبکہ میاں شہباز شریف نے بھی اس کے لیے اپنی طرف سے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی شو میں گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر ہیں‘ کوئی اختلاف نہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر ہیں‘ کوئی اختلاف نہیں‘‘ ماسوائے میاں نواز شریف اور زرداری صاحب کے‘ اور میں نے ان ہر دو حضرات کو خود ہی اے پی سی میں شامل ہونے سے روک دیا تھا ‘تا کہ دنگا فساد نہ ہو جائے‘ کیونکہ دونوں جوشیلے آدمی ہیں‘ کہیں ہاتھا پائی نہ شروع کر دیں ‘کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے کی نیکیاں اچھی طرح سے یاد ہیں‘ تاہم اس سے میرے حق الخدمت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں‘ کیونکہ زرداری صاحب قسمت کے دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ بات کے بھی پکّے ہیں؛ چنانچہ یہ دونوں کچھ زیادہ ہی ایک پیج پر تھے۔ اس لیے خوفِ فسادِ خلق سے ان دونوں سے استدعا کی گئی کہ اجلاس میں شرکت کی بجائے اپنے اپنے وکلاء سے مشوروں پر توجہ دیں‘ کیونکہ نیب کے ارادے اب تو صاف اور واضح نظر آ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز رحیم یار خان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو اپنی ناکامیوں کے بوجھ تلے
دبتا دیکھنا چاہتے ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت کو اپنی ناکامیوں کے بوجھ تلے دبتا دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ ہم تو اس پر بوجھ ڈالنے سے قاصر ہیں‘ کیونکہ ہمارا بوجھ تو مقدمات اور انکوائریوں نے ختم کر دیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم ہر وقت خلا میں رہتے ہیں‘ اس لیے حکومت کی ناکامیوں سے درخواست ہے کہ حکومت پر اپنا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈال دیں‘ تا کہ اس سے گلوخلاصی کی کوئی صورت نکل سکے ‘ورنہ تو این آر او کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ تاہم یہ کافی ڈھیٹ حکومت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ بھی برداشت کر لے گی ؛اگرچہ ہم ایسا نہیں کر سکے تھے‘ کیونکہ ایک تو ہماری ناکامیوں کا بوجھ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تھا اور دوسرے کا خدمت کرنے اور اسے اکٹھا کر کے ٹھکانے لگانے میں ہی تھک کر ہلکان ہو چکے تھے کہ اوپر سے ناکامیوں کا بوجھ بھی آ پڑا اور ہماری کمر توڑ کر رکھ دی‘ جس کا علاج کروانے پر بھی کافی پیسے خرچ ہو گئے اور اگر سر توڑ خدمت نہ کی ہوتی تو یہ علاج بھی نا ممکن تھا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
حکومت احتساب اور انتقام میں فرق کرے: برجیس طاہر
سابق وفاقی وزیر برجیس طاہر نے کہا ہے کہ ''حکومت احتساب اور انتقام میں فرق کرے‘‘ کیونکہ کچھ پتا ہی نہیں چل رہا کہ حکومت احتساب کر رہی ہے یا انتقام لے رہی ہے؛اگرچہ ہم لوگ تو اسے انتقام ہی سمجھتے ہیں‘ کیونکہ ہمار لیڈر شپ لگاتار اسے انتقام ہی کہہ رہی ہے‘ کیونکہ احتساب ان کیلئے ایک بالکل اجنبی چیز ہے کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور اب ہو رہا ہے‘ تو وہ اسے پہچان ہی نہیں پا رہی اور انتقام انتقام کی رٹ بڑے زور و شور سے لگا رہی ہے‘ اس لیے حکومت یہ دونوں کام بیشک کرے ‘لیکن ان میں امتیاز ضرور رکھے۔ انہوں نے کہا کہ ''ابتدائی دنوں میں ہی مہنگائی کر کے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی‘‘ حالانکہ یہ پہلے ہی‘ یعنی ہمارے دور سے ہی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس لیے حکومت کو کمر کی بجائے ٹانگیں وغیرہ توڑنے کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہئے تھی‘ اور بعد میں اس کے لیے بیساکھیوں اور وہیل چیئرز کا انتظام کرنا چاہئے تھا‘ لیکن لگتا ہے کہ حکومت دور اندیشی کے معاملے میں کوری ہے‘ جو کہ اپنی جگہ پر نہایت افسوسناک بات ہے۔ آپ اگلے روز سانگلا ہل میں ایک عشائیے سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
کہتے رہو جو بھی ظفرؔ‘ بات ہے اتنی
یہ کوئی محبّت کا زمانہ ہی نہیں تھا