ن لیگ کو ملک کے کونے کونے تک پہنچائیں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ن لیگ کو ملک کے کونے کونے میں پہنچائیں گے‘‘ اس لیے پہلے یہ معلوم کیا جائے گا کہ ملک کے کتنے کونے ہیں‘ کم از کم چار پانچ تو ہونے ہی چاہئیں اور خاکسار کے اندر ہونے کے بعد ویسے بھی پارٹی تین چار حصوں میں تقسیم ہو جائے گی‘ یعنی جتنی ن لیگیں ہوں گی‘ اس کے لیے اتنا ہی باعثِ برکت ہوگا‘ اس کے بعد برخوردان کی باری آئے گی اور مزید ن لیگیں پیدا ہوں گی اور ہر طرف برکت ہی برکت ہوگی اور اس کے بعد ن لیگ کو جیل کے کونے کونے میں پہنچائیں گے‘ جسے سہولت کی خاطر ج لیگ کہا جائے گا۔ انہوںنے کہا کہ ''پارٹی سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے کارکنوں کو آگے لایا جائے‘‘ اور یہ نظریہ ساری دُنیا کو معلوم ہے‘ جس میں ذرا دلیری درکار ہوتی ہے‘ کیونکہ نیب خواہ مخواہ بے تکلفی کا اظہار شروع کر دیتی ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈی جی نیب نے کس کے ایماء پر باتیں کیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ڈی جی نیب نے کس کے ایماء پر باتیں کیں‘‘ کیونکہ یہاں عرصہ دراز سے کوئی بھی بات ازخود نہیں کہی جاتی‘ بلکہ اس کے پیچھے کسی نہ کسی کا ایماء ضرور شامل ہوتا ہے؛ حتیٰ کہ ہم بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے‘ لیکن جن کے ایماء پر باتیں کیا کرتے تھے‘ انہوں نے ہماری ساری تابعداریوں کا کوئی خیال نہیں کیا اور ہمارا ہی ٹیٹوا دبانا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ''شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی‘‘ اور یہ ممکن بھی نہیں تھی ‘کیونکہ دھیلا سکہ رائج الوقت ہی نہیں تھا‘ بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ ایک پائی کی کرپشن نہیں کی‘ اس لیے ان کی بات مان لینی چاہئے ‘بلکہ ہر کرپٹ شخص ؛اگر اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرے‘ تو اس پر اعتبار کر لینا چاہیے‘ تاکہ نظام بدستور چلتا رہے اور سکوں پائیوں پر وقت ضائع نہ کیا جائے ‘جبکہ یہ قومی وقار کے بھی سخت خلاف ہے۔ پتا نہیں ہمیں کب سمجھ آئے گی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھیں۔
پاکستان کو امریکی کالونی نہیں بننے دیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو امریکی کالونی نہیں بننے دیں گے‘‘ جبکہ برطانیہ‘ فرانس اور کینیڈا کی کالونی بھی بنا جا سکتا ہے‘ بلکہ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم کسی اسلامی ملک کی کالونی بنتے اور اس عمل پرثواب پر بھی ہو جاتا اور جس کے لیے خاکسار سے مشاورت کی جا سکتی ہے‘ کیونکہ اب تو یہی خدمت انجام دے سکتا ہوں‘ جبکہ دیگر سارے معاملات یکے بعد دیگرے ختم ہو گئے ہیں‘ بلکہ اے پی سی بھی کھٹائی میں پڑ گئی ہے؛ چنانچہ اب سوچ رہا ہوں کہ کوئی مستقل کام شروع کیا جائے‘ کیونکہ گھر میں بیٹھ کر مکھیاں بھی نہیں مار سکتا کہ ہماری طرح یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے‘ جس کی خواہ مخواہ جان لینا کسی طرح سے بھی مستحسن عمل نہیں‘ جبکہ مکھیاں مارنے کی نسبت مکھیاں اُڑانا زیادہ افضل ہے‘ کیونکہ یہ کم بخت ناک پر بھی بیٹھ جاتی ہیں جو کہ قریباً ناک کے کٹنے ہی کے برابر ہوتا ہے‘ جس صورت میں آدمی ناک سے لکیریں بھی نہیں نکال سکتا۔ آپ اگلے روز بٹ خیلہ میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام کی خدمت کرنا جرم ہے تو یہ جرم کرتے رہیں گے: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پاٹری کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''عوام کی خدمت کرنا‘ اگر جرم ہے تو یہ بھی کرتے رہیں گے‘‘ کیونکہ جرائم کی ویسے بھی عادت پڑ چکی ہے اور یہ ایک روٹین کا معاملہ ہو کر رہ گیا ہے‘ تاہم خدمت کرنے میں فرنٹ مینوں کا کام بھی چلتا رہتا ہے اور کام ایک ایسی چیز ہے کہ اسے چلتا ہی رہنا چاہیے‘ لیکن صرف سندھ حکومت کے بل بوتے پر خاطر خواہ خدمت نہیں کی جا سکتی‘ اس لیے وفاقی حکومت حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں‘ کیونکہ خدمت کا اصل مزا تو وفاقی حکومت میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''معلوم ہے‘ مجھ سے کون طاقتیں نبرد آزما ہیں‘‘ اور میرے نمایاں شان بھی یہی ہے‘ کیونکہ اکیلی نیب کا نبرد آزما ہونا تو ویسے بھی توہین کی بات ہے اور میرا خیال ہے کہ بیرون ملکی طاقتیں ہیں ‘جو یہ کام کر رہی ہیں اور کسی حد تک تسلی بخش بھی ہے۔ آپ اگلے روز باندھی میں میر غلام مصطفی ڈاہری کی طرف سے دیئے جانے والے استقبالیہ سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب اس ہفتے کی تازہ غزل:
بھرا شراب سے جیسے سبُو دھڑکتا ہے
اسی طرح سے مرے دل میں تُو دھڑکتا ہے
ترے حضور تو دھڑکن ہے اور ہی دل کی
یہ تجھ سے دُور بھی کیا ہُو بُہو دھڑکتا ہے
کبھی کبھار تری دھڑکنوں کا سناٹا
کہیں سے آ کے مرے رو بُرو دھڑکتا ہے
تجھے خبر ہی نہیں تیرے شہر میں مرا دل
سُنا سُنا کے تجھے کو بکو دھڑکتا ہے
تُو اس کو خوابِ ملاقات ہی نہ جان کہ یہ
کچھ اور ہے جو پسِ آرزو دھڑکتا ہے
بیانِ شوق ترے سامنے بھی ہے ممکن
کہ لفظ چُپ بھی رہے تو لُہو دھڑکتا ہے
تُو اپنے باغِ بدن کی ہوا میں ہو جس دم
تمام سلسلۂ رنگِ و بُو دھڑکتا ہے
جواب ملتا ہے یا لاتعلقی ہے وہی
سوالِ وصل دمِ گفتگو دھڑکتا ہے
جو حلقہ زن ہوں زمانوں سے اپنے گرد‘ ظفرؔ
یہ میں نہیں ہوں‘ مرا چار سُو دھڑکتا ہے
آج کا مقطع
ہے منتظر اک اور زمانہ مرا‘ ظفرؔ
ایک اور ہی طرف کا پکارا ہوا ہوں میں