عوام کو ریلیف دو سال بعد ملے گا: شیخ رشید
وزیرریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''عوام کو ریلیف دو سال بعد ملے گا‘‘ اور اس مہنگائی کے ہاتھوں جتنے عوام اللہ کو پیارے ہونے سے بچ گئے‘ وہ اس ریلیف کا خوب مزہ اُڑائیں گے‘ تاہم اس ریلیف کا ثواب مرنے والوں کو بھی پہنچے گا‘ جو ان کے گناہ جھڑنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا‘ اس لیے اچھے دنوں کا انتظار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''اس وقت حکومت بہت سے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے‘‘ اور یہ چیلنجز کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کب تک حکومت کے سامنے رہتے ہیں اور کب دائیں بائیں ہو جاتے ہیں‘ تاکہ حکومت دیگر مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کرپٹ عناصر کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ ماسوائے ہمارے کرپٹ عناصر کے‘ اور ان کی باری تب آئے گی جب دوسرے کرپٹ عناصر سلاخوں کے پیچھے چلے جائیں گے ۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو مہلت دینا الیکشن قبول کرنے کے مترادف ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کو مہلت دینا جعلی الیکشن کو قبول کرنے کے مترادف ہے‘‘ جس میں خاکسار کی انتخابی شکست بھی شامل ہوگی ‘جسے میں نے آج تک قبول نہیں کیا اور حکومت کو مہلت دینا دراصل میرے خلاف ایک سازش ہوگی ‘جس کا پردہ میں چاک کر رہا ہوں؛ اگرچہ یہ عمل کچھ زیادہ مستحسن نہیں‘ لیکن چونکہ میں پہلے ہی کافی غیر مستحسن اقدامات اور کام کر چکا ہوں‘ اس لیے اس کے اضافے سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''آسیہ کی رہائی اور سی پیک کو خراب کرنے کے لیے عمران خان کو وزیراعظم بنایا گیا‘‘ جس میں وہ کامیاب ہیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں خطاب کر رہے تھے۔
عمران کے اعصاب پر نواز اور شہباز سوار ہیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران کے اعصاب پر نواز شریف اور شہباز شریف سوار ہیں‘‘ اور میں ان اعصاب کی مضبوطی کی داد دیتی ہوں‘ جو اتنا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں ‘کیونکہ بوجھ سے کمر توڑنے کے لیے تو اکیلے نواز شریف ہی کافی تھے‘ جبکہ شہباز شریف کا بھی داؤ لگ گیا ہے اور مفت کے ہوٹے لے رہے ہیں‘ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ باقاعدہ کاٹھی ڈال کر سوار ہوئے ہیں یا ویسے ہی‘ تاہم دونوں صورتوں میں گھوڑے کی کمر ٹوٹنے کا خطرہ بہرحال موجود ہے ‘جبکہ کاٹھی نہ ہونے کی وجہ سے رکاب بھی نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے دونوں کے گرنے کا احتمال بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ پیچھے بیٹھا ہوا آگے والے کو جپھا مار کر خوب جکڑ کر رکھے‘ تاکہ گریں تو اکٹھے کریں ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہی تھیں۔
ریکارڈ کی درستی
برادرِ عزیز نے اپنے کالم میں دو شعر درج کیے ہیں‘ جن میں وزن کا مسئلہ پیدا ہوا ہے ‘جو کہ شاعری جیسی نازک اور خوبصورت چیز کے حسن میں کمی کا باعث ہوا ہے‘ جبکہ مقصد صرف اصلاحِ احوال ہے۔ اعلیٰ ادبی ذوق کا حامل ہونا ایک اضافی خوبی ضرور ہے‘ لیکن ضروری نہیں کہ آپ شعر کے وزن میں بھی درک رکھتے ہوں۔ بہرحال‘ پہلا شعر ہے ؎
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر‘ ان کو اس کی کیا خبر
غم بھی کسی کی ذات تھی‘ دل بھی کسی کا نام تھا
یہاں ''کو‘‘ کے بعد ''اب‘‘ آئے گا‘ تو ہی مصرعۂ اوّل کا وزن پورا ہوگا۔اگلا شعر ہے ؎
مجبوری و دعویٰ گرفتاریٔ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
یہاں مصرعۂ اوّل میں لفظ ''دعویٰ کو ''دعوائے‘‘ لکھنا اور پڑھنا ہوگا‘ تاکہ اس کا وزن پورا ہو سکے‘‘ و ما علینا الا البلاغ۔
اور اب شعر و شاعری‘ اور اس سے پہلے یہ وضاحت بھی کہ پرسوں والے کالم میں جو شعر شہزاد نیئر کے نام سے درج ہوا تھا۔ اس کے بارے برادرم سید گلزار بخاری نے بتایا ہے کہ یہ شعر غالباً بھارتی شاعر بشیر بدر کا ہے ۔؎
خطا وار سمجھے گی دُنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
آخر میں منتخب شاعری پیش خدمت ہے:
حبس بے جا سہا نہیں جاتا
مجھ سے مجھ میں رہا نہیں جاتا
وہ پرندہ تھا‘ اُڑ گیا فوراً
میں شجر تھا سو کٹ گیا تنہا (نعیم ضرار)
کچھ بھی ہونے کا مجھ کو ڈر کم ہے
شُکر ہے دُور کی نظر کم ہے
تیرا تصویر سے معاملہ ہے
تجھے دیوار کی خبر کم ہے(محمد عارف)
رُخ مرا اب ہے شہر کی جانب
میری وحشت میں کچھ کمی ہوئی ہے (یاسمین سحر)
قصّہ ابھی حجاب سے آگے نہیں بڑھا
میں‘ آپ‘ وہ‘ جناب سے آگے نہیں بڑھا
عجب پُرلطف منظر دیکھتا رہتا ہوں بارش میں
بدن جلتا ہے اور میں بھیگتا رہتا ہوں بارش میں(احساس بھٹی)
آج مقطع
گلی گلی مرے ذرے بکھر گئے تھے‘ ظفرؔ
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا