تبدیلی کہیں نظر نہیں آ رہی، حکومت میں شامل لوگ
قوم کی محرومیوں کے ذمہ دار ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''تبدیلی کہیں نظر نہیں آ رہی، حکومت میں شامل لوگ قوم کی محرومیوں کے ذمہ دار ہیں‘‘۔ غضب خدا کا، سو دن پورے ہو چکے ہیں اور تبدیلی کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آ رہا، اگرچہ تقاضائے عمر کی وجہ سے میری نظر بھی خاص کمزور ہو چکی ہے‘ تاہم تبدیلی کا کوئی پہلو تو نظر آنا چاہیے کیونکہ ہم اگر حکومت میں ہوتے تو اب تک تبدیلیوں کے ڈھیر لگا چکے ہوتے بلکہ اس ڈھیر پر کھڑے ہو کر اس کی تصدیق کرتے کیونکہ ویسے تو میں شاید نظر نہ آتا کیونکہ میرا ڈیل ڈول مولانا فضل الرحمن جیسا نہیں ہے جو اگر نظر آ رہے ہوں تو اور کچھ بھی نظر نہیں آتا جبکہ اقتدار سے محرومی کے بعد بھی ان کی ضخامت یعنی جسامت میں کوئی فرق نہیں آیا ۔یہ نسخہ میں بھی آزمانے کی کوشش کروں گا کیونکہ کارکنوں کا خیال ہے کہ زیادہ فاصلے پر تو میں دکھائی ہی نہیں دیتا۔ آپ اگلے روز میانوالی میں میانوالی، بھکر اور خوشاب کے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
عوامی مسائل حل نہ کرنیوالوں کیخلاف کارروائی ہوگی: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ'' عوامی مسائل حل نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی‘‘ اور باقی ہمارا وقت شاید اسی کام میں گزر جائے کیونکہ عوامی مسائل کسی جگہ سے بھی حل نہیں ہوں گے جس سے کارروائی کی طوالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، نیز اس لیے بھی کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ حکومت نے نہ تو عوامی مسائل حل کیے نہ حل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جبکہ عوامی مسائل تو ایسے ہیں کہ حل ہونے والے ہی نہیں ورنہ پچھلی حکومتیں انہیں کب کا حل کر چکی ہوتیں اس لیے اس کے ذمہ دار خود عوام ہیں جنہوں نے خود بھی ان مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی، لہٰذا انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ہم حکومت کریں یا عوامی مسائل حل کریں جو ہمیں اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد ملی ہے۔ اگرچہ کسی اور بات کی توقع بھی ہم سے نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ ہم اگر خلافِ توقع حکومت میں آ گئے ہیں تو بتایا جائے کہ ہم اس کی خوشی منائیں یا عوامی مسائل کے حل جیسے ناممکن کام میں سر کھپاتے رہیں۔ آپ خواتین پر تشدد کے عالمی دن کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔
جمہوریت کی بالادستی کی مہم سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوریت کی بالادستی کی مہم سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘ کیونکہ جب سے ہماری بالادستی ختم ہوئی ہے، ہمیں ایک پل چین نہیں آ رہا، اور اب صرف والد صاحب کے اندر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ مکمل طور پر فارغ ہو کر اس نیک کام کو شروع کر دیں کیونکہ جب تک اُن کا سایہ پارٹی کے سر پر مسلط ہے، کسی نتیجہ خیز کام کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ اکیلے نہیں بلکہ کئی دیگر زعما بھی ان کے ساتھ ہونگے۔ انہیں مردِ حُر کا خطاب بھی ملا تھا جبکہ کئی ستم ظریف اُنہیں مردِ پُر بھی کہنے لگ گئے تھے اور جس کا انہوں نے کبھی بُرا بھی نہیں منایا تھا کیونکہ اس سے نعمتوں کا کفران ہو سکتا تھا۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت اور عدلیہ بھی بے بس ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت اور عدلیہ بے بس ہیں‘‘ جبکہ خود مجھے بھی لاپتہ کئے جانے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، اگرچہ اغوا کار کھانے پینے کا کافی بلکہ خاص خیال رکھتے ہیں، اس لیے میرے لاپتہ ہونے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے لیکن خدشہ ہے کہ میری خوراک کے بِل سے گھبرا کر وہ خود ہی مجھے چھوڑ دیں گے اور شاید واپسی کا کرایہ بھی نہ دیں جو کہ بہت بڑی زیادتی ہوگی کیونکہ خوش اخلاقی کا تقاضا بھی یہ ہے کیونکہ اغوا کاروں کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ خوش خوراکی کی وجہ سے لاپتہ افراد کے جسم میں ویسے بھی سستی اور کسلمندی پیدا ہو جاتی ہے اس لیے اُنہیں چاہیے کہ لاپتہ فرد کو صبح و شام دوڑیں وغیرہ بھی لگوائیں ۔یہ نہیں کہ اسے باقاعدہ سست الوجود کر کے چھوڑ دیا جائے۔ آپ اگلے روز شکار پور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب عمرے سے واپسی پر محمد اظہار الحق کی یاد گاریں:
میں تھا قلاش یا زردار جو بھی تھا وہیں تھا
کہ میرا اندک و بسیار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں تھا ایک پتھر جس پہ تفصیلِ سفر تھی
یہ رستہ سہل یا دشوار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں میزان تھی اوزان لکھے جا رہے تھے
اثاثہ کاہ یا کہسار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں کم مائیگاں کے ناز اُٹھائے جا رہے تھے
میں شکوہ سنج و کج گفتار جو بھی تھا وہیں تھا
لہو میں ان گنت شمعیں تھیں آنکھوں میں دُھواں تھا
یہ عالم ہجر یا دیدار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں مٹی مری اظہار گوندھی جا رہی تھی
ازل کا اولیں دربار جو بھی تھا وہیں تھا
متاعِ بے بہا آنسو زمیں میں بو دیا تھا
پلٹ کر جب ترا گھر میں نے دیکھا رو دیا تھا
عصا در دست ہوں، اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا میں نے کھو دیا تھا
زمانے، حُسن، ثروت ہیچ سب اس کے مقابل
تہی کیسہ کو اس پہلی نظر نے جو دیا تھا (باقی‘ باقی)
پسِ تحریر
کل والے کالم میں مَیں نے محبی ایم ابراہیم خان لکھا تھا جو کہ غلطی سے محبی کے بجائے مسمی چھپ گیا‘ جس کے لیے دلی معذرت پیش کرتا ہوں کہ میں ایسی بے ا دبی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔
آج کا مقطع
ہوئے ہو فتح یاب تم جس کے اندر
ظفر اس لڑائی میں کام آ گیا ہے