جعلی حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''جعلی حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی‘‘ کیونکہ ملک میں کوئی چلتی چیز نہیں چلتی‘ ورنہ میری سیاست بھی چل چکی ہوتی‘ جس پر ایک دم بریک لگ گیا ہے‘ جبکہ اس کا صحیح علاج یہ ہے کہ بریکوں پر پابندی لگا دی جائے‘ جو ہر چلتی ہوئی چیز پر لگ جاتی ہیں‘ لیکن میری کون سنتا ہے‘ ایک میاں نواز شریف تھے‘ جو میری بات سن لیتے تھے؛ اگرچہ اپنی نہیں کہتے تھے‘ کیونکہ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کھا رہے ہوتے تھے‘ جبکہ ان کا سنہری اصول یہ تھا کہ ایک وقت میں ایک ہی کام کرنا چاہیے اور انہوں نے واقعی اس اصول پر عمل بھی کر کے دکھایا اور دورانِ اقتدار اپنا پسندیدہ ایک ہی کام کرتے رہے‘ تاہم وہ عمر عزیز کے بقایا سال میں جیل میں رہ کر بھی میری امداد کر سکتے ہیں‘ لیکن تجربہ یہی کہتا ہے کہ جیل جا کر آدمی ویسے ہی بے دید ہو جاتا ہے اور طوطا چشمی سے کام لینے لگتا ہے ۔ آپ اگلے روز سکھر میں ملین مارچ ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن حکومت کے پیچھے لگ گئی‘ عمران بچ نہیں سکیں گے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن جس دن حکومت کے پیچھے لگ گئی‘ عمران بچ نہیں سکیں گے‘‘ اور ہم صرف زرداری صاحب کے اندر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں‘ تاکہ پوری طرح یکسو ہو کر حکومت کے پیچھے لگیں ‘ورنہ اب تک حکومت نے اپوزیشن ہی کو آگے لگا رکھا ہے‘ جبکہ آگے لگنے والوں میں مَیں خود بھی شامل ہوں‘ کیونکہ میری ٹانگوں پر سے گرد وغیرہ جھاڑ کر انہیں کھولنے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں‘ جبکہ گرد و غبار ویسے بھی کوئی اچھی چیز نہیں ہے ‘جو کہ پورے ملک پر چھایا ہوا ہے اور جسے دور کرنے کی فکر کسی کو نہیں ہے؛ حالانکہ اس نے ہر ایک کا حُلیہ بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے‘ جبکہ اکثر اوقات تو کارکن مجھے پہچانتے ہی نہیں اور مجھے ہر بار رومال سے منہ صاف کرنا پڑتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
انتقام کو احتساب کا نام دیکر قوم کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''انتقام کو احتساب کا نام دے کر قوم کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا‘ کیونکہ قوم کو جتنا بیوقوف ہم بنا چکے ہیں‘ اس میں اس سے زیادہ بیوقوف بننے کی گنجائش ہی نہیں ہے اور اس میں اگر مزید گنجائش ہوتی تو ہم اسے خود ہی مزید بیوقوف بنا چکے ہوتے؛ حتیٰ کہ اس سلسلے میں ہمارے قائد نے بھی سرتوڑ کوشش کی ہے‘ لیکن اسے مزید بیوقوف نہیں بنا سکے اور اس کوشش میں خواہ مخواہ سر بھی توڑا لیا؛ چنانچہ اب اس کام سے توبہ کر لی ہے اور ہر جگہ خاموش ہی رہتے ہیں اور پورے خشوع و خضوع سے مقدمات کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں‘ جبکہ یہ بھی محض ایک تکلف ہی ہے‘ ورنہ جو کچھ ہونا ہے‘ اس کا اندازہ سب کو پہلے ہی سے ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عوام پر 100دن جس طرح گزرے بیان نہیں کر سکتے: مریم
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عوام پر 100دن جس طرح گزرے‘ بیان نہیں کر سکتے‘‘ کیونکہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا پڑتا کہ ہماری حکومت نے خزانے کا جو حال کر دیا تھا‘ اس کے بعد تو 100نہیں‘ بلکہ 1000دن بھی اس طرح گزرتے؛ ا گرچہ یہ بھی کوئی راز نہیں اور ہر شخص جانتا ہے ‘کیونکہ سب کچھ عوام کی آنکھوں کے سامنے ہی ہوتا رہا ہے‘ لیکن جیسا کہ سب سمجھتے ہیں‘ ہماری بھی مجبوری ہے کہ حکومت کے خلاف جھوٹے سچے بیان دیتے رہیں کہ یہی ہمارا فرض بھی ہے اور ہم سے زیادہ فرض شناس بھی اور کوئی نہیں ہو سکتا؟ جبکہ جو کچھ ہمارے قائدین کرتے رہے ہیں‘ فرض ہی سمجھ کر کرتے رہے ہیں ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ا یک بیان جاری کر رہی تھیں۔اور اب محمد اظہار الحق کا مزید ہدیۂ نعت:
پروں کی ارغوانی چھاؤں پھیلائی تھی سر پر
بہشتی نہر کا پانی مسافر کو دیا تھا
برونِ در نکلتے ہی بہت گھبرا گیا ہوں
میں جس دُنیا میں تھا کیوں اُس سے واپس آ گیا ہوں
کوئی سیارہ میرے اور اس کے درمیاں ہے
میں کیا تھا اور دیکھو کس طرح گہنا گیا ہوں
مجھے راس آ نہ پائیں گے یہ پانی اور مٹی
کہ میں ایک اور مٹی سے ہوں اور مرجھا گیا ہوں
میں پتھر چوم کر تحلیل ہو جاتا ہوا میں
مگر زندہ ہوں اور ہیہات واپس آ گیا ہوں
کہاں میں اور کہاں دربار کا جہل و تکبر
مگر اک رسم کی تسبیح جس سے چھا گیا ہوں
دریچے خاکِ دل کے وَا ہوئے ناگاہ میرے
میں تنہا تھا مگر تھے رفتگاں ہمراہ میرے
فرشتے لے چلے سُوئے حرم تابوت میرا
کفِ افسوس ملتے رہ گئے بدخواہ میرے
یہاں میں متحرم ہوں اور وہ نادم کھڑے ہیں
نظر مجھ سے چراتے ہیں وزیر و شاہ میرے
کہاں یہ چشمۂ کافور‘ یہ رحمت کی لپٹیں
کہاں وہ زندگی وہ روز و شب جانکاہ میرے
زمیں گردش میں ہے اس پر مکاں رہتا نہیں ہے
مگر اُس سے نہیں آگاہ واقف آہ! میرے
آج کا مقطع
امید بھی نہیں تھی‘ انتظار بھی نہیں تھا
اگرچہ راستا کچھ خاردار بھی نہیں تھا