"ZIC" (space) message & send to 7575

عامر سہیل کی تازہ شاعری اور ریکارڈ کی درستی

بہاول نگر میری جائے پیدائش ہے اور اب وہاں سے عامر سہیل کا ظہور ہوا ہے اور اُس نے ساری کسریں نکال دی ہیں‘ وہ صاحبِ طرز تو ہے ہی کہ اس کا شعر اب اُس کی پہچان بن چکا ہے ‘جبکہ اس نے غزل اور نظم کو نئی لفظیات سے بھی مالا مال کیا ہے‘ یعنی وہ الفاظ جو شاعری میں اب تک درخورِ اعتناء نہیں سمجھے جاتے تھے اور یہی اُس کا پیرایۂ ا ظہار بھی بن چکا ہے۔ تازگی‘ اگر شعر کیلئے کوئی لازمی شرط ہے‘ تو وہ اس کے کلام میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اُس کی بیکری کا کچھ گرما گرم مال ہمیں موصول ہوا ہے‘ جو آپ کی تفنن طبع کیلئے حاضر ہے:
دو آنکھوں کی تحریر ہے کیا
یہ آنسو دامن گیر ہے کیا
یہ چاند کوئی فرہاد نہیں
یہ سورج رسا گیر ہے کیا
وہ فجر سے بھیگی بیٹھی ہے
دن چڑھنے میں تاخیر ہے کیا
ہم ساتھ زمیں پر اُترے تھے
یہ تانیث و تذکیر ہے کیا
کسی کے کاغذی سینے پہ عامرؔ
خدا کے بعد میرے دستخط ہیں
کافی ہے یہ چراغ محبت کے سوگ میں
آنسو ہے وقتِ شام‘ جلا لیجیے اسے
دو بیگھہ تنہائی میں
برکت نیک کمائی میں
دُنیا کو حیران کرو
پہنو چاند کلائی میں
ہونٹ سیو دو ہونٹوں سے
فرق نہ ہو ترپائی میں
گھاٹی گھاٹی نُور ہے
پھینک دوپٹہ کھائی میں
تجھ میں ہیں یا ترے ٹوٹے ہوئے پیمان میں ہم
کاسنی ہجر بچھا لیتے ہیں دالان میں ہم
فجر شیشے میں نہیں‘ اجر وظیفے میں نہیں
بس تجھے سوچ کے چل پڑتے ہیں طوفان میں ہم
شہر اندھیر‘ بدن ڈھیر کیے بیٹھے ہیں
تیری آنکھوں کے دیئے بیچ کے نقصان میں ہم
خود کو اُس شام ملاقات میں چھوڑ آئے تھے
جب تری زُلف نہ رکھ پائے تھے سامان میں ہم
مینہ برسنے کی قسم‘ اپنے ترسنے کی قسم
ایک چہرہ ہے جسے رکھتے ہیں جُزدان میں ہم
حُور و غلمان فسانہ تو نہیں ہیں عامرؔ
چُھو بھی سکتے ہیں انہیں سُورئہ رحمن میں ہم
ہم سے ناراض عشاء اور تہجد‘ عامرؔ
یار کے راز اُگل دیتے ہیں ہذیان میں ہم
یار ستارا گردی ہے
کیا آوارا گردی ہے
دن میں تیری یاد کی دُھن
شب سیپارا گردی ہے
تیری سمت نمائی ہے
جو سیّارا گردی ہے
یہ تیرے میک اپ کی دُھول
پھر چوبارا گردی ہے
اُڑتے ہیں بیلُون میں ہم
عشق غبارا گردی ہے
آنکھ نہیں لگتی یہ آنکھ
وہ رخسارا گردی ہے
چولستانِ غزل سکتی ہو‘ جل سکتی ہو
دُھوپ سے چہرہ مل سکتی ہو‘ جل سکتی ہو
یادوں یادوں بھادوں بھادوں
گرتی اور پگھل سکتی ہو‘ جل سکتی ہو
پیار میں عامرؔ‘ پانی کی اس دھار میں عامر'ؔ
مروا رید اُگل سکتی ہو‘ جل سکتی ہو
(عامر سہیل کی نظمیں کسی اگلی نشست میں پیش کی جائیں گی )
ریکارڈ کی درستی
برادرِ عزیز نے آج اپنے کالم بعنوان ''پانی یہیں مرتا ہے‘‘ میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے؛؎
شاخِ گل ہی اُونچی ہے نہ دیوارِ چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی‘ تری قسمت کی پستی ہے
اس میں پہلا مصرعہ خارج از وزن ہو گیا ہے‘ اور وہ بھی صرف ایک لفظ کی کمی کی وجہ سے‘ اسے یوں ہونا چاہیے تھا؛ع
نہ شاخِ گل ہی اُونچی ہے نہ دیوارِ چمن بلبل
آج کا مقطع
ہمارے پاس تھا جو کھو دیا ہے وہ بھی‘ ظفرؔ
کسی کی الجھی ہوئی جستجو کے بیچوں بیچ

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں