اثاثے حسن نے بنائے‘ جے آئی ٹی نے مجھے مالک بنا دیا:نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اثاثے حسن نے بنائے‘ جے آئی ٹی نے مجھے مالک قرار دے دیا‘‘ جبکہ وہ اُس وقت سکول کا طالب علم تھا‘ جہاں اسے اثاثے بنانے ہی کی تعلیم دی جاتی تھی‘ ورنہ مجھے تو پتا ہی نہیں کہ اثاثے کیا ہوتے ہیں اور کس چیز کے ساتھ کھائے جاتے ہیں اور ویسے بھی چیزوں کو دیگر دوسری یا اثاثوں کے ساتھ ملا کر کھانا پرلے درجے کی بدذوقی ہے‘ جبکہ نہاری‘ پائے‘ ہریسا اور پایوں کو علیحدہ علیحدہ ہی کھانا چاہیے ‘کیونکہ ہر سالن کی اپنی ایک الگ تاثیر ہوتی ہے‘ جس کا مزہ الگ الگ ہی لینا چاہیے ‘جبکہ ملا کر کھانے سے آپ کھانے کے ساتھ پورا انصاف بھی نہیں کر سکتے‘ جبکہ ایک چیز پیٹ بھر کر کھا بھی لی جائے‘ تو دوسری چیز کھانے کو خواہ مخواہ جی چاہنے لگتا ہے‘ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ انہیں پیٹ میں جا کر بھی الگ الگ رہنا چاہیے ‘تاکہ یہ اپنا اپنا امتیاز برقرار رکھ سکیں۔ ہیں جی؟ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں وضاحت پیش کر رہے تھے۔
جمہوریت خطرے میں‘ مہنگائی کا سیلاب آنے والا ہے: عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''حکومت جھوٹی‘ جمہوریت خطرے میں‘ اور مہنگائی کا سیلاب آنے والا ہے‘‘ کہ شرفاء پر مقدمات بنا کر جمہوریت کو صحیح معنوں میں خطرے میں ڈالا جا رہا ہے‘ کیونکہ اگر سبھی معززین اندر ہو گئے تو جمہوریت کہاں باقی رہے گی اور عوام کی خدمت کون کرے گا اور اگر عوام کی خدمت نہ کی گئی تو سرمایہ گردش میں کیونکر رہے گا اور ایک جگہ منجمد ہو کر رہ جائے گا ‘جبکہ اسے رواں دواں ہی رہنا چاہیے‘ ملک کے اندر بھی اور ملک سے باہر جا کر بھی‘ کیونکہ روپے پیسے کو بھی انسانوں کی طرح تبدیلیٔ آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے‘ تاکہ ہماری طرح روپے پیسوں کی صحت بہتر بلکہ قابلِ رشک رہے اور ہم نے اسی لیے ہسپتالوں پر کوئی توجہ نہیں دی کہ یہ کام تبدیلیٔ آب و ہوا سے لے لیا جائے ‘کیونکہ کام لینا ہی اصل چیز ہے ‘جبکہ اقتدار اور حکومت سے بھی زیادہ سے زیادہ کام لینا چاہیے ‘تاکہ حکومت کی صحت بھی بہتر رہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مریم نواز گھر میں سانحہ کی وجہ سے صدمے میں ہیں: مریم اورنگزیب
سابق وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''مریم نواز کلثوم نواز کی بیٹی ہیں‘ گھر میں سانحہ کی وجہ سے صدمے میں ہیں‘‘ جبکہ اس سے بھی بڑا صدمہ یہ ہے کہ وہ تو ملک کی وزیراعظم بننے والی تھیں جس کی بجائے انہیں جیل جانا پڑ گیا‘ کم از کم اُنہیں وزیر جیل خانہ جات ہی لگا دیا جاتا‘ جو اب بھی ممکن ہے کہ جیل کے اندر سے ہی وہ یہ وزارت چلا سکتی ہیں‘ کیونکہ انسان میں جذبۂ تعمیر ہونا چاہیے‘ جس سے بڑے سے بڑا معرکہ بھی سر کیا جا سکتا ہے‘ جبکہ معرکے سر کرنا تو اُن کی گھٹی میں پڑا ہے‘ جو اُنہیں والد صاحب سے ورثے میں ملا ہے اور ابھی عوام کی خدمت کا جذبہ انہیں ورثے میں ملنے ہی والا تھا کہ ظالموں نے اس کی نوبت ہی نہیں آنے دی‘ تو سب سے پہلے ملک سے ظلم کا خاتمہ ہونا چاہیے ‘جو مختلف اداروں نے اسے پروان چڑھانے کا کام اپنے ذمہ لے رکھا ہے‘ جس کے خاتمے کیلئے ان اداروں کو بد دعائیں ہی دی جا سکتی ہیں ‘جو جھولیاں پھیلا پھیلا کر دی بھی جا رہی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
پہلا پرائم منسٹر ہوں ‘جسے آپ نے یہاں دعوت دی: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''پہلا پرائم منسٹر ہوں‘ جسے آپ نے یہاں دعوت دی‘‘ اگرچہ مجھے سمن بھیج کر بلانے کے بھی پورے پورے امکانات اور خدشات موجود تھے‘ کیونکہ اعظم سواتی کی ایک بچگانہ حرکت کی وجہ سے مجھے بھی بلایا جا سکتا تھا اور جس کے امکانات اب بھی موجود ہیںاور سواتی بے چارہ ابھی بچہ ہے‘ کچھ عرصہ وزیر رہا تو بڑا ہو جائے گا اور بڑوں جیسی حرکتیں کرنے لگے گا‘ جو کہ زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں؛چنانچہ میں نے بھی ابھی اسے مستعفی ہونے کا نہیں کہا کہ ابھی عقل کا کچا ہے اور میرے خیال میں وہ کانوں کا کچا بھی ہے؛ اگرچہ کان تو میرے بھی ابھی پوری طرح سے پکے نہیں ہوئے جنہیں میں روزانہ دھوپ لگوا رہا ہوں کہ جلد از جلد پکے ہو جائیں ‘کیونکہ ابھی تو کچے کان میں یہ بتانا پڑتا ہے کہ میں واقعی وزیراعظم ہوں؛چنانچہ اس بات کا امکان بھی ہے کہ کسی کان میلئے کی خدمات حاصل کرنا پڑ جائیں‘ کیونکہ اصولی طور پر کانوں کا میل کچیل سے صاف ہونا بھی ضروری ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں چیف جسٹس سے ملاقات کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
حضرات ہارون الرشید اور ایم ابراہیم خان نے شاید نظر بد سے بچنے کے لیے ایک ایک شعر اپنے کالم میں اس طرح سے درج کیا ہے کہ دونوں خارج از وزن ہو گئے ہیں۔ برادرِ اسلام ہارون الرشید نے اپنے کالم بعنوان ''چراگاہ‘‘ میں فارسی کا ایک شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
بہ زیر شاخِ گل افعی گزید بلبل را
نواگران ناخوردہ گزند را چہ خبر
جبکہ مصرعِ ثانی میں لفظ ''نخوردہ‘‘ کی بجائے ناخوردہ لکھا گیا ہے جس سے مصرع بے وزن ہو گیا ہے؛ اگرچہ فرق معمولی ہے‘ لیکن شعر کی نزاکت اسے بھی برداشت نہیں کر سکتی۔
ایم ابراہیم خان صاحب نے شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
کشتی خوشی سے جس نے بھنور میں اُتار دی
جب چل پڑے سفر کو کیا مُڑ کے دیکھنا
اس کے دوسرے مصرع میں لفظ ''تو‘‘ رہ گیا ہے‘ یعنی مصرع کو اس طرح ہونا چاہیے تھا تاکہ اس کا وزن مجروح نہ ہو ؎
جب چل پڑے سفر کو تو کیا مُڑ کے دیکھنا (ماعلینا الالبلاغ)
آج کا مقطع
چھوڑنا بھی ہے اس جگہ کو‘ ظفرؔ
ہے یہیں اپنا آب و دانہ بھی