"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں اُن کی، متن ہمارے

نچلے طبقے کو اُوپر لائیں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''نچلے طبقے کو اوپر لائیں گے‘‘ جس کی ابتداء کابینہ سے کر دی گئی ہے‘ جو سارے کے سارے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی تو ابھی سے ماشاء اللہ حرکتیں بھی نچلے طبقوں جیسی کر رہے ہیں ‘جن میں اعظم سواتی صاحب سرفہرست ہیں ‘جبکہ پنجاب کابینہ کی فہرست بھی بنائی جا رہی ہے‘ جس کی ابتداء راجہ بشارت صاحب نے کر دی ہے اور جن کی وزارت یقینی طور پر خطرے میں پڑ گئی ہے اور ان کی حرکت نچلے درجے کی اس لیے تھی کہ حنیف عباسی کی بیٹی کی سفارش پر وزارت سے ہاتھ دھو رہے ہیں؛ حالانکہ اگر ایم ایس کو دھمکیاں ہی دینی تھیں تو اپنی پارٹی کے کسی آدمی کیلئے دیتے کہ اس سے زیادہ نیچ حرکت اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ مخالفین کی حمایت پر اپنی نوکری گنوا رہے ہیں اور یہ دلیری نہیں‘ بلکہ دیدہ دلیری ہے ‘جبکہ اسی طرح کی دلیری کا مظاہرہ وزیراعلیٰ کے پی کے نے بھی کیا ہے ‘جو نیب سے کلین چٹ ملنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ‘جبکہ نیب کہہ رہی ہے کہ ہم نے کوئی کلین چٹ نہیں دی۔ آپ اگلے روز ارکان قومی اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔
آمروں کو شکست دی‘ کٹھ پتلی حکومت کیا چیز ہے: زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہم نے آمروں کو شکست دی‘ کٹھ پتلی حکومت کیا چیز ہے‘‘ اور آمر پرویز مشرف کی اس سے بڑی شکست اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم نے اُسے 21توپوں کی سلامی دے کر بھیجا‘ جبکہ ہمارا خیال تھا کہ ایک آدھ گولہ موصوف کو بھی لگ جائے گا اور کٹھ پتلی حکومت کو گرانے کے ساتھ ساتھ نادیدہ قوتوں کے خلاف بھی بڑھکیں مارنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اندر تو ہو ہی جانا ہے‘ اپنی بھڑاس کیوں نہ نکال لوں‘ جبکہ بھڑاس ہمیشہ نکلتی ہی رہنی چاہیے؛ اگرچہ یہ بعض اوقات مہنگی بھی پڑجاتی ہے‘ جبکہ ویسے بھی کٹھ پتلی حکومت نے ہر چیز مہنگی کر دی ہے اور صرف گرفتاریاں سستی ہیں کہ میرے جیسے معصوم اور پہنچے ہوئے بزرگ پر بھی ہاتھ صاف کیا جا رہا ہے‘ تاہم اس میں حکومت کو صرف صفائی کے نمبر ہی ملیں گے‘ جیسا کہ میرا دامن صاف ہے اور جس کو ڈیٹرجنٹ سے میں دھوتا ہوں‘ کوئی داغ باقی رہتا ہی نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پارٹی وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
جو ادارہ چاہتا ہے‘ احتساب کرے‘ ہم ڈرتے نہیں: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''جو ادارہ چاہتا ہے‘ احتساب کرے‘ ہم ڈرتے نہیں‘‘ کیونکہ زیادہ سے زیادہ قید ہی ہو جائیں گے‘ تو جہاں ہمارے قائدین اندر ہیں اور اس کے علاوہ بھی جیل کی طرف آمد آمد ہی لگی ہوئی ہے‘ تو خاکسار بھی ان کی روایت پر چل کر سرخرو ہی ہوگا اور کچھ لوگوں کا تھپڑ کھا کر بھی چہرہ سرخ ہو جاتا ہے تو وہ اسے بھی سرخروئی ہی شمار کرتے ہیں‘ جبکہ حکومت اپنی جگہ پر سرخرو ہو رہی ہے؛ اگرچہ وہ دوسروں کے منہ لال کر کے سرخروئی کا دعویٰ کر رہی ہے؛ حالانکہ دعویٰ کرنے کی بجائے عاجزی سے کام لینا چاہیے‘ جبکہ ہمارے قائد اپنی دختر نامدار کے ساتھ نرم روئی اور پرلے درجے کی حلیمی کا اظہار کر رہے ہیں؛البتہ اگر زرداری صاحب سے ان کی ملاقات ہو جاتی ہے‘ تو لفظی مار دھاڑ دوبارہ بھی شروع ہو سکتی ہے ‘کیونکہ وہ بھی آج کل بہت گرم ہیں اور خربوزے کو دیکھ کر خوبوزہ رنگ پکڑتا ہے‘ جبکہ یہ محاورہ بھی برمحل ہی رہے گا کہ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر‘ نتیجہ ایک ہی ہوگا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کی پالیسیاں حکومت گرانے کیلئے کافی ہیں: خورشید شاہ
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی پالیسیاں حکومت گرانے کے لیے کافی ہیں‘‘ جبکہ دراصل تو یہ بیان نہیں‘ بلکہ ایک بد دُعا ہے‘ جو پیپلز پارٹی کے ہر رہنما کے دل سے نکل رہی ہے اور چونکہ سبھی کالی زبان والے ہیں‘ اس لیے بد دُعا کے قبول ہونے کے بھی خاصے امکانات موجود ہیں اور زرداری صاحب اندر جا کر جو بد دُعائیں مانگیں گے‘ اُن کا قبول ہونا تو یقینی ہے‘ کیونکہ یہ بد دعائیں ان کے دل سے نہیں‘ پیٹ سے نکلتی ہے کہ سارا مسئلہ پیٹ ہی کا تو ہے اور اسی کو پیٹ پر لات مارنا بھی کہتے ہیں ‘جبکہ یہ کبڑے پر لات ہے‘ جو ہمیں راس بھی بہت آتی ہے اور ایک ہی لات سے سارے کُب نکل جاتے ہیں ‘نیز قائم علی شاہ صاحب کے خلاف بھی انکوائری؛ اگر کسی منطقی انجام نتیجے پر پہنچتی ہے تو یہ لات انہیں بھی بہت راس آئے گی اور سارے کُب ایک ہی لات سے نکل جائیں گے؛ البتہ ڈاکٹر عاصم حسین کیلئے ایک سے زیادہ لاتیں درکار ہوں گی ‘کیونکہ اُن کا کُب ذرا سخت واقع ہوا ہے۔آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
زرداری‘ نواز ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں: رانا ثناء
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''زرداری‘ نواز ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں‘‘ اگرچہ دونوں کے حالات ایک ہی طرح کے ہیں‘ بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں‘ صرف دونوں کی ملاقات ہونے کی دیر ہے اور اگر یہ ملاقات اب نہ ہوئی تو جیل میں ضرور ہو جائے گی‘ کیونکہ دونوں کی منزل ایک ہی ہے اور یہ دونوں‘ جس منزل کا بھی ارادہ کر لیں‘ اس پر پہنچتے ضرور ہیں‘ اکیلے بھی اور الگ الگ بھی ‘کیونکہ ارادے کے دونوں دھنی ہیں اور جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دونوں کا واسطہ دھن دولت سے ہے ‘جس کی حکومت اور نیب دونوں کو سخت تکلیف ہے ؛حالانکہ یہ اللہ کی دین ہے اور دونوں کا اللہ میاں کے ساتھ لین دین کافی پرانا ہے؛ حتیٰ کہ انہیں اللہ میاں کی اور اللہ میاں کو ان کی عادت ہی پڑ گئی ہے‘ جبکہ ان کی عادت تو اس قدر پختہ ہے کہ قبر تک تو جائے گی‘ جبکہ فی الحال تو جیل تک ہی ساتھ جائے گی۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
پیچھے کہیں ہٹے ہیں نہ آگے بڑھے ہوئے
تو نے جہاں رکھا تھا وہیں ہیں پڑے ہوئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں