"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں ، متن اور تشویش!

قائداعظم نے جن لوگوں کے لیے ملک بنایا‘ وہ 
دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں: آصف کرمانی
ن لیگ کے سینیٹر آصف کرمانی نے کہا ہے کہ ''قائداعظم نے جن لوگوں کے لیے ملک بنایا‘ وہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں‘‘ اور تو اور وہ ہمارے وقت سے ہی ترس رہے ہیں‘ بلکہ انہیں اس کی عادت بھی پڑ چکی ہے‘ جبکہ اچھی عادتوں کو پڑنا چاہیے کہ ملک عزیز میں بُری عادتوں کا رواج زیادہ ہوتا جا رہا ہے‘ مثلاً: چار بار وزیراعظم رہنے والے کو پکڑنے سے زیادہ بُری عادت اور کونسی ہو سکتی ہے؟ حالانکہ وہ بھی سب کچھ اپنی پرانی عادت کے مطابق ہی کر رہے تھے اور جس طرح چوری کا گُڑ زیادہ میٹھا ہوتا ہے‘ اسی طرح اس قسم کی پرانی عادت بھی بہت مزیدار ہوتی ہے‘ جسے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا؛ اگرچہ اس میں چوری کا کچھ زیادہ دخل نہیں ہوتا ‘کیونکہ چوری تو تب چوری ہوتی ہے‘ جب پکڑی جائے‘ ورنہ ہر کوئی سادھ ہی ہوتا ہے ‘جیسے کہ ہمارے رہنما پانامہ سے پہلے تھے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حیران ہوں ‘بنی گالا کیسے خریدا اور تعمیر کیا گیا: بختاور بھٹو
پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو نے کہا ہے کہ ''حیران ہوں‘ بنی گالا کیسے خریدا اور تعمیر کیا گیا‘‘ جبکہ پھوپھی صاحبہ کے گھر کے بارے میں اب سب کو معلوم ہے کہ اس میں 35لاکھ جعلی اکاؤنٹس میں سے نکال کر لگائے گئے تھے اور ویسے بھی وہ کافی کھاتی پیتی خاتون ہیں‘ جو اندرون سندھ 500ایکڑ زرعی اراضی اور دبئی میں 5فلیٹس کی مالک ہیں‘ کیونکہ والد صاحب اَکل کُھرے نہیں‘ بلکہ بانٹ کر کھانے والوں میں سے ہیں ‘جبکہ اسلامی اصول بھی یہی ہے کہ بانٹ کر کھانا چاہیے‘ جبکہ کھانے کی چیز اگر اتنی وافر ہو جائے کہ کھائی ہی نہ جا سکے تو اسے بانٹ کر کھانا ویسے بھی مجبوری بن جاتا ہے اور اللہ میاں جب دیتا ہے تو چھپڑپھاڑ کر ہی دیتا ہے‘ جبکہ انکل نواز شریف سے جو چھپڑ بچے تھے‘ وہ اللہ میاں نے ہم پر پھاڑ دیئے‘ بلکہ شاید کچھ نئے بھی پھاڑنا پڑے ہوں۔ آپ اگلے روز سماجی ویب سائٹ کی ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہی تھی۔
فیصلے میں کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں: احسن اقبال
سابق وزیر داخلہ پاکستان اور ن لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''فیصلے میں کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں‘‘ کیونکہ ثبوت تو وہ ہوتا ہے‘ اگر آدمی کرپشن کرتے ہوئے پکڑا جائے‘ جیسے ہمارے ایک صوبائی وزیر پیسے لیتے ہوئے پکڑے گئے تھے؛ اگرچہ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تھا‘ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ چند لاکھ یا چند ہزار روپوں کی کرپشن کوئی کرپشن نہیں ہوئی؛ اگرچہ ہم کئی ارب روپوں کی کرپشن کو بھی کرپشن نہیں سمجھتے‘ کیونکہ اس کے لیے کافی ہنرمندی اور محنت درکار ہوتی ہے اور اگر اللہ میاں کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے تو ہم ایسا کرنے والے کون ہوتے ہیں‘ کیونکہ بندہ بشر اگر محنت نہ کرے تو اور کیا کرے گا‘ جبکہ اس میں بھی خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات پتاہی نہیں چلتا کہ خون کون سا ہے اور پسینہ کون سا؟ چنانچہ اس کے لیے محدب شیشہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ آپ اگلے روز دیگر لیگی رہنماؤں کے ساتھ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کچھ چیزیں مضحکہ خیز ہیں: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''جے آئی ٹی رپورٹ میں کچھ چیزیں مضحکہ خیز ہیں‘‘ کہ اس میں کتوں کے کھانے اور بکروں کے صدقے کا بھی ذکر کیا گیا ہے؛ حالانکہ کتے بھی اللہ میاں کی مخلوق ہیں اور انہیں خوراک مہیا کرنا ویسے بھی کارِ ثواب ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے‘ تو وہ کتے کی موت مر جاتے ہیں‘ جبکہ یہ فرنٹ مینوں سے بھی بڑھ کر وفادار بھی ہوتے ہیں اور جہاں تک بکروں کا تعلق ہے تو آخر بکروں کی ماں کب تک خیر مناتی ؛حالانکہ وہ قربانی کے نہیں‘ بلکہ صدقے کے بکرے تھے؛ اگرچہ اس کی بھی چنداں ضرورت نہیں تھی‘ کیونکہ سندھ بھر کے عوام ہی جب زرداری صاحب پر صدقے واری جا رہے تھے‘ تو بکروں کے صدقے کی کیا ضرورت تھی اور اگر دینا ہی تھا تو کم از کم اونٹوں کا صدقہ تو ہوتا‘ جو زرداری صاحب کے شایان شان بھی تھا اور اونٹ بھی ایسے ہوتے‘ جن کی ساری کلیں سیدھی ہوتیں۔ افسوس کہ ایسی باتوں کا اب خیال ہی نہیں رکھا جاتا۔ آپ اگلے روز مزار قائد پر حاضری کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
تشویش
ہمارے بعض دوست اس پر ناراض ہو رہے ہیں کہ جب کسی بڑے لیڈر کو پکڑا جاتا ہے‘ تو کئی وزراء اس پر پریس کانفرنسیں کرتے ہیں او ر اپنے تئیں خوشی کا اظہار کرتے ہیں‘ جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ‘ حکومت خود کروا رہی ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سارے مقدمات موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پہلے سے قائم شدہ ہیں‘ علاوہ ازیں؛ اگر وہ اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں‘ تو اس کا انہیں حق پہنچتا ہے‘ کیونکہ وہ یہی مینڈیٹ لے کر برسر اقتدار آئے ہیں۔دوسرا ‘ہمارے ایک بہت عزیز دوست نے یہ بھی بجا طور پر فرمایا ہے کہ ہماری سیاسی زندگی کے 30سال ضائع کر دئیے گئے‘ان کا اشارہ ڈکٹیٹروں کی طرف تھا۔اس میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ڈکٹیٹروں کی مداخلت کا جواز یا بہانہ اس وقت کی سول حکومتوںنے اپنی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے خود فراہم کیا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کیا ہماری موجودہ سول حکومتیں واقعی آزاد اور با اختیار ہیں؟۔
آج کا مقطع
شعر میرا مسافر ہے‘ اس کو‘ ظفرؔ
آخر اک دن کہیں پر ٹھہرنا تو ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں