"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں، متن اور رفعت ناہید کی تازہ غزل

کسی چور ڈاکو کے دباؤ میں نہیں آئیں گے: فیاض چوہان
پنجاب کے وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''کسی چور ڈاکو کے دباؤ میں نہیں آئیں گے‘‘ کیونکہ چور اور ڈاکو‘ اگر ہمارے دباؤ میں نہیں آ رہے اور ہرروز سرعام ڈکیتیاں ہو رہی ہیں تو ہم ان کے دباؤ میں کیسے آ سکتے ہیں؟ اور جب تک وہ ہمارے دباؤ میں نہیں آئیں گے‘ خاطر جمع رکھیں‘ ہم بھی اُن کے دباؤ میں نہیں آئیں گے؛ حالانکہ ہم حکومت ہیں اور انہیں ہمارے دباؤ میں آنا چاہیے اور جواب میں اخلاقاً ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے اور جس کا واحد حل یہ ہے کہ آزمائش کے طور پر تھوڑا تھوڑا وہ ہمارے دباؤ میں آئیں اور اسی تناسب سے ہم اُن کے دباؤ میں آئیں گے۔ لینا ایک نہ دینا دو‘ کیونکہ گاڑی کچھ لو اور کچھ دو ہی سے چلتی ہے؛ اگرچہ ہماری گاڑی ماشاء اللہ انجن کے بغیر ہی چل رہی ہے‘ تاہم ایک انجن کیلئے کوشش کی تھی‘ لیکن وہ خواجہ سعد رفیق کا خریدا ہوا چینی انجن نکلا‘ اس لیے جہاں جانا ہو‘ گاڑی کو دھکے سے ہی دھکیل کر لے جاتے ہیں ‘کیونکہ آدمی؛اگر کسی کام کے لیے کمر کس کر باندھ لے تو کامیاب ہو ہی جاتا ہے؛ اگرچہ سارا کچھ کمر پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں فنکاروں کو چیکوں کی تقسیم کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف مہیا کرے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف مہیا کرے‘‘ لیکن ‘چونکہ عوام کی اکثریت کے پاس اپنا گھر ہی نہیں ہے‘ اس لیے دہلیز کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے حکومت ‘اگر انہیں گھر بنا کر نہیں دے سکتی تو کم از کم دہلیز تو بنا کر دے سکتی ہے‘ تاکہ اُس پر انہیں انصاف مہیا کیا جا سکے‘ علاوہ ازیں وہ عوام کو قبل از وقت ہی یہ بتا دیا کرے کہ انصاف انہیں کس وقت مہیا کیا جائے گا‘ تاکہ وہ انصاف کے انتظار میں دن رات اپنی دہلیزوں پر ہی نہ بیٹھے رہا کریں‘ جبکہ حکومت کو خود بھی وقت کا پابند ہونا چاہیے اور جو وقت وہ کچھ نہ کرنے پر خرچ کرتی ہے‘ اس میں سے بھی کچھ بچا لیا کرے اور چونکہ حکومت کے پاس پانچ سال تک وقت ہی وقت ہے‘ اس لیے وہ اسے دریا دلی سے خرچ بھی کرتی ہے اور چونکہ بھارت نے دریاؤں کا پانی بند کر رکھا ہے‘ اس لیے حکومت دریا دلی پر ہی گزارہ کرتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں وکلاء کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
جے آئی ٹی کے الزامات کا جواب موجود ہے: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''جے آئی ٹی کے الزامات کا جواب ہمارے پاس موجود ہے‘‘ اور دے اس لیے نہیں رہے کہ ہم کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور سوال جواب میں وقت ضائع نہیں کرتے اور یہ سنہری اصولی ہماری قیادت کا ہے‘ جنہیں جو ایک کام آتا ہے‘ پوری تندہی اور ذوق و شوق سے کرتے ہیں‘ کیونکہ قائداعظم نے بھی کہہ رکھا ہے کہ کام‘ کام اور صرف کام‘ اس لیے جو کام آدمی کو آتا ہو‘ اسے وہی کرنا چاہیے اور پرائے پھٹے میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے‘ کیونکہ اگر اپنا وسیع و عریض پھٹہ موجود ہو تو کسی اور پھٹے کی طرف دیکھنے کی بھی کیا ضرورت ہے؛ چنانچہ اس میں ٹانگ اڑانے کی بجائے اس پر لیٹ بھی سکتے ہیں‘ کیونکہ مسلسل کام کے بعد آرام کرنے کی بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے اور کام خواہ کتنا بھی لذیذ اور مزیدار کیوں نہ ہو۔آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
زرداری سے ہاتھ ملا سکتے ہیں‘ نیب کا سلوک اچھا ہے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''زرداری سے ہاتھ ملا سکتے ہیں‘ نیب کا سلوک اچھا ہے‘‘ اگرچہ خود زرداری ہمارے ساتھ ہاتھ ملانے کو شاید تیار نہ ہوں‘ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سے ہم اپنا اُلو سیدھا کرنا چاہتے ہیں؛ حالانکہ اُن کا اپنا اُلو بھی خاصا ٹیڑھا ہے اور جو روز بروز مزید ٹیڑھا ہوتا جائے گا‘ اس لیے ہم نے سوچا ہے کہ اگر اُلو سیدھا نہیں ہوتا تو اُلو کے پھٹوں سے کام لیا جائے‘ لیکن کہاں اُلو اور کہاں اُلو کا پٹھہ‘ شاگرد آخر اُستاد کے ساتھ برابری کیسے کر سکتا ہے‘ نیز یہ جو نیب میرے ساتھ اتنا اچھا سلوک کر رہا ہے‘ تو مجھے دال میں کچھ کالا کالا بھی لگتا ہے‘ یعنی وہ میٹھی چھری سے کام نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے؛ حالانکہ چھری نہ تو نمکین ہوتی ہے‘ نہ میٹھی جبکہ چھری تو چھری ہوتی ہے اور چھری اگر نمکین ہو بھی تو لازمی طورپر نمک حرام ہوتی ہے‘ جیسے کہ میرے بعض ساتھی میرے خلاف وعدہ خلاف گواہ بن کر نمک حرامی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب شعری مجموعہ ''دیر سویر‘‘ کی خالق رفعت ناہید کی تازہ غزل:
مٹی‘ پانی سارا ہو گئی
لے‘ میں کچا گارا ہو گئی
آدھی آنکھیں رکھنے والے
دیکھ‘ میں نین ستارہ ہو گئی
پہلے رمز کنایہ تھی میں
اب بھرپور اشارہ ہو گئی
جتنی بار مٹایا تُو نے
اُتنی بار دوبارہ ہو گئی
تیرا راستہ تکتے تکتے
کھڑکی بھی انگارہ ہو گئی
چنگاری کچھ دیر تو سلگی
اور پھر پارا پارا ہو گئی
بہتے بہتے ہانپ گئی تو
ندیا آپ کنارا ہو گئی
پانی پانی کھیلیں گے اب
تو ساحل‘ میں دھارا ہو گئی
گری ہوئی دیوار کی صورت
ٹوٹا ہوا سہارا ہو گئی
آج کا مطلع
پیام ِ ترک ِ مراسم وصول کر لیا ہے
تمہارا فیصلہ ہم نے قبول کر لیا ہے

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں