"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں، متن اور تازہ غزل

ہسپتال مریضوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں: علیم خاں
پنجاب کے سینئر وزیر علیم خاں نے کہا ہے کہ ''ہسپتال مریضوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں‘‘ جس طرح یہ صوبہ ہمارا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں‘ لیکن اس صوبے کی شامتِ اعمال‘ اگر ہم آ گئے ہیں تو ہمیں برداشت کرنا پڑے گا‘ ورنہ اُن سے پوچھے جو ہمیں لے کے آئے ہیںاور اس کا کوئی غلط مطلب نہ لیجئے ‘کیونکہ ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے؛ اگرچہ اُن سے اب پوچھیں تو وہ صاف مُکر جائیں گے اور اُن کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی ہر بات سے مُکرنا شروع کر دیا ہے‘ مثلاً: وزیراعظم نے جو وعدے کیے تھے۔ اُن سے حیلے بہانے کرنا شروع کر دیا ہے‘ کیونکہ وہ وعدے تھے ہی ایسے کہ اُن کا ایفا ہونا‘ ویسے بھی ناممکن تھا‘ تاہم یہ ساری خرابی اس کنٹینر کی ہے‘ جس پر چڑھ کر انہوں نے وہ وعدے کیے تھے اور اب ہمیں اُس کنٹینر کی تلاش ہے‘ تاکہ اسے غلط وعدے کرنے کا مزہ چکھا سکیں؛ اگرچہ مزہ صرف چکھنے کیلئے ہوتا ہے‘ لیکن کم بخت مزیدار اتنا ہوتا ہے کہ سارے کا سارے کھا کر بھی جی نہیں بھرتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں فری ڈسپنسری کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف ایک دو ماہ میں باہر آ جائیں گے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف ایک دو ماہ میں باہر آ جائیں گے‘‘ اور یہ بھی اُن کی ڈھارس بندھانے کیلئے کہا ہے‘ ورنہ ایک دو ماہ تک تو وہ خود مزید روز ہو جائیں گے ‘کیونکہ اُنہیں جیل کی روٹی اتنی پسند آ گئی ہے کہ انہوں نے گھر سے کھانا منگوانا بند کر دیا ہے‘ کیونکہ جیل کی دال کا ایک اپنا ہی مزہ ہے‘ جس کا ذائقہ سُن سُن کر زرداری صاحب بھی جلد از جلد وہاں پہنچنے کے خواہاں ہیں ‘جہاں دونوں کی ملاقات بھی ہو جائے گی‘ جو کہ جیل سے باہر انہوں نے زرداری صاحب سے ملاقات سے صاف انکار کر دیا ہے‘ جبکہ اگلے روز سابق گورنر پنجاب کو بھی جذبۂ خیر سگالی کے طورپر ہی جیل میں ملاقات کیلئے بھیجا گیا تھا؛ اگرچہ واپس آ کر انہوں نے کوئی اُمید افزاء رپورٹ نہیں دی‘ جبکہ ویسے بھی ہر طرف ناامیدی ہی کے بڑھتے ہوئے سائے نظر آ رہے ہیں‘ جو یقینا کسی آسیب کا سایہ ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
علماء امتِ مسلمہ کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''علماء امتِ مسلمہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘ جبکہ اصل میں تو خاکسار اکیلا ہی امتِ مسلمہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے؛ اگرچہ بعض شرپسند مجھے امت مسلمہ کے گلے میں پھنسی ہڈی سے بھی موسوم کرتے ہیں ‘جو اُگلی جا سکتی ہے‘ نہ نگلی؛ حالانکہ جو چیز منہ میں آ جائے اسے کسی نہ کسی طرح نگلنا مفید ہوتا ہے‘ کیونکہ پیٹ کے کچھ اپنے بھی مطالبات ہوتے ہیں‘ جبکہ میرے پیٹ کے مطالبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ‘ نیز کچھ لوگ جہاں پیٹ کے ہلکے ہوتے ہیں‘ خاکسار کا پیٹ ماشاء اللہ کافی بھاری واقع ہوا ہے آپ اگلے روز پشاور کے ہسپتال میں شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ جان بابا جی کی عیادت کر رہے تھے۔
امن کی کنجی افغانوں کے ہاتھ میں ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''امن کی کنجی افغانوں کے ہاتھ میں ہے‘‘ اگرچہ ہمیں بھی ایک کنجی کہیں سے دستیاب ہوئی ہے ؛چنانچہ ہمیں اُس تالے کی تلاش ہے‘ جو اس کنجی سے کھلے گا‘ اسی طرح‘ اگر ہمیں کوئی تالہ کہیں سے ملتا تو ہمیں اس کے لیے کنجی کی تلاش ہوتی؛البتہ ہمارے پاس جو سیاست کی کنجی ہے‘ اسے تو ہم ماسٹر کی سمجھتے تھے کہ اس سے ہر تالہ کھل جائے گا ‘لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ ا س سے بعض اوقات ہمارے اپنے گیٹ کا دروازہ بھی نہیں کھلتا؛ چنانچہ ہم آج کل کھل جا سِم سِم جیسی کسی کنجی کی تلاش میں ہیں‘ تاکہ سارے کے سارے تالے اس سے کھل جایا کریں‘ جس کیلئے ہم نے کنجی بردار کی تعیناتی کر دی ہے۔ اب صرف کنجی کی کسر رہ گئی ہے‘ جو اُمید ہے کہ بہت جلد پوری ہو جائے گی جب کہ تالہ توڑنے کے ہم حق میں نہیں‘ کیونکہ اس حرکت کے خلاف فوجداری کارروائی بھی ہو سکتی ہے‘ اللہ معاف کرے! آپ اگلے روز لاہور میں سابق افغان سفیر عمر داؤد زئی سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
جاتے ہیں اب کہیں نہ ہی آتے ہیں اور بس
گھر میں ہی ساری دُھوم مچاتے ہیں اور بس
اوڑھا ہے آسمان تو بچھائی ہے یہ زمیں
اور‘ اُس کے خواب دیکھتے جاتے ہیں اور بس
کہتا نہیں ہے جس کا کہا چاہیے ہمیں
سنتا نہیں ہے جس کو سناتے ہیں اور بس
رہتا ہے پھر بھی تھوڑا بہت دل کے آس پاس
سارے کا سارا اُس کو بھلاتے ہیں اور بس
کچھ کامیابیوں سے نہیں ہے غرض ہمیں
ناکامیوں سے کام چلاتے ہیں اور بس
اس زندگی کا اور کریں بندوبست کیا
ہر سال ایک سال گھٹاتے ہیں اور بس
کچھ یہ بھی کم نہیں کہ تماشہ دکھا کے ہم
سب کو تماش بین بناتے ہیں اور بس
خود ہی اُبھرنے لگتی ہے تصویرِ کائنات
پردہ سا درمیاں سے ہٹاتے ہیں اور بس
اس عمر میں کریں گے‘ ظفرؔ عشق اور کیا
جو ہے اُسی کی خیر مناتے ہیں اور بس
آج کا مطلع
میں سن رہا ہوں‘ اپنے کنارے سے بات کر
منہ میں زباں نہیں تو اشارے سے بات کر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں