میاں صاحب میرے سمدھی تو تھے ہی ‘لیکن اس سے پہلے میرے دوست بھی تھے۔ ان سے راہ رسم کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ چیف انجینئر تھے اور خود شاعر تھے۔ سو‘ مشاعرے بھی کروایا کرتے۔ اُن کے ساتھ ایک مشاعرے ہی میں ملاقات ہوئی‘ بلکہ یہ تعلق اس سے بھی بہت پہلے کا ہے جب میں ایف سی کالج میں نے فسٹ ایئر میں داخلہ لیا ‘جہاں ان کے چھوٹے بھائی محمود احمد بھی میرے ہم جماعت تھے۔ وہ سائنس کے طالب علم تھے‘ تاہم ان سے گہری دوستی قائم ہوئی۔ بعد میں وہ شیخ زید ہسپتال کے چیئرمین اور صوبائی وزیر صحت بھی رہے۔
مرحوم کے ساتھ رشتے داری کا آغاز یوں ہوا کہ میرے سب سے چھوٹے بیٹے جنید اقبال کے لیے ہمیں رشتہ مطلوب تھا۔ ان کے ہاں سے لڑکی پسند آئی اور ہم نے اس کے ہاتھ کے لیے درخواست کی جس پر انہوں نے کہا کہ کچھ سوچ کر آپ کو مطلع کر دیں گے۔ چند روز کے بعد اُنہوں نے فون پر معذرت کر دی۔ ڈاکٹر محمود احمد کو معلوم ہوا تو انہوں نے ان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کس شخصیت کو انکار کر رہے ہیں؟ جس پر انہوں نے اپنا ارادہ بدلا اور میری اہلیہ کو فون کیا کہ بھابی‘ آپ کے گھوڑے جیت گئے اور ہمارے گھوڑے ہار گئے! خود بھی ایک عمدہ شاعر تھے اور شاعری کے نئے لوازمات سے پوری طرح سے لیس۔ اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لکھتے اور شاعری کے مجموعے بھی چھپ چکے ہیں‘ لیکن اب سے بہت عرصہ پہلے شعر کہنا ترک کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اُن کی دعوت پر جب میں نے پہلی بار مشاعرہ پڑھا تو اُن کا کمنٹ یہ تھا کہ کھچرا شاعر ہے! یہ عجیب اتفاق ہے کہ ان کے دوسرے سمدھی بھی شاعر تھے‘ یعنی اُن کی چھوٹی بیٹی کی شادی جاوید شاہین کے بیٹے سے ہوئی ‘جس کے معاملات طے کرنے میں منو بھائی پیش پیش تھے ‘لیکن افسوس کہ وہ شادی ناکام ہو گئی۔
اُن کا انتقال کوٹ اَدو میں ہوا‘ جہاں وہ اپنی بیٹی کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے 18کیو بلاک میں رہائش رکھتے تھے‘ جہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ میٹھا اتنا پسند تھا کہ اکثر اوقات فریج کے گرد ہی منڈلاتے پائے جاتے۔ جب بھی ملاقات ہوتی یا فون پر بات ہوتی تو میں کھانے پینے میں اُن کے ''پرہیز‘‘ کا ذکر ضرور کرتا اور یہ ایک مستقل چھیڑ تھی جو باہمی دلچسپی کا باعث بھی رہی۔ میرے ایک شعری مجموعے کا انتساب بھی ان کے نام ہے۔ بیمار پڑے تو میں نے ان سے کہا کہ میاں صاحب‘ پتا نہیں آپ نے مجھے رونا ہے یا میں نے آپ کو۔ ہنس کر بولے کہ یہ کام آپ ہی کریں گے اور اسے سچ بھی کر دکھایا۔
(انا للہ و انا الیہ راجعون)
کیا ہی اچھا ہوتا ؛اگر ہم دونوں ایک ساتھ ہی اس دُنیائے فانی سے کوچ کر جاتے۔ میں نے اپنی مرحوم اہلیہ سے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا ‘لیکن وہاں بھی میں ہی ناکام رہا۔ اب میری زبردست خواہش ہے کہ اگر اللہ میاں نے میرے گناہ معاف کر دیئے تو میں اُن سے یہی درخواست کروں گا کہ اللہ میاں‘ مجھے حُوروں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کی بجائے مجھے اپنی اہلیہ سے ملا دیں تو جنت میں رہنے کا مزا تبھی آئے گا!
اب ہمارے پاس مرحوم کی واحد نشانی میری بہو فرح جنید ہیں ‘جن کی وجہ سے اس گھر کی رونق دو چند ہو گئی ہے اور اس پر طرہ میرے دو پوتے ارحم جنید اور ارسل جنید‘ جو میری سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ جنید کے ساتھ تو عاشقانہ شروع ہی سے ہے‘ یعنی جس دن وہ پیدا ہوئے تھے۔ پہلی نظر میں محبت شاید اس کو کہتے ہیں۔ اب وہ اپنے چینل کا گروپ ایم ڈی ہے‘ اس لیے ملاقات کا موقعہ کم ہی ملتا ہے۔ یہ شعر بطورِ خاص اُسی کے لیے تھا ؎
جب تک کہ میں اُس کو دیکھ نہ لوں
آنکھوں میں اندھیرا رہتا ہے
یہی نہیں ‘بلکہ کئی اور اشعار بھی ہیں‘ اُردو میں بھی اور پنجابی میں۔ اس کے دوست اسے یہ کہہ کر چھیڑا کرتے ہیں کہ ذرا وہ شعر تو سُنا جو ظفر صاحب نے تم پر ضائع کیے ہیں!
میاں صاحب بھی سب سے زیادہ پیار اپنے اسی داماد سے کیا کرتے تھے۔ ایک ہنس مُکھ اور انتہائی خوش مزاج آدمی تھے اور ایسے لگتا ہے کہ میرا بہت سارا ذاتی نقصان ہو گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ پسماندگان میں ہماری بھابی رشیدہ ہیں جو خود بھی بیمار شمار ہی رہتی ہیں‘ صاحبزادہ ضیاء مقبول جو اپنا کاروبار کرتا ہے اور فرح سمیت پانچ صاحبزادیاں‘ جو سب اپنے اپنے گھروں میں ہنسی خوشی آباد ہیں اور‘ اب آخر میں حسب ِ معمول اس ہفتے کی تازہ غزل:
لکھتا ہوں بار بار‘ مٹاتا ہوں بار بار
جو بن نہیں رہا وہ بناتا ہوں بار بار
ہوتا ہوں چُور چُور تھکاوٹ سے‘ اور کہیں
جاتا ہوں بار بار نہ آتا ہوں بار بار
ہر بار بھول جاتا ہوں‘ ملنا محال ہے
یہ بات خود کو یاد دلاتا ہوں بار بار
وہ ہے کہ میرے ہاتھ نہیں آ رہا کہیں
میں ہوں کہ اُس سے ہاتھ چھڑاتا ہوں بار بار
ہر بار وہ‘ ہُنر جو کسی کام کا نہیں
خود سیکھتا ہوں اور سکھاتا ہوں بار بار
رہتا ہے اک طرح سے برابر مرا حساب
لُٹتا ہوں بار بار‘ کماتا ہوں بار بار
کوئی پتنگ ہے نہ ہوا میرے ارد گرد
کیا جانے کس سے پیچ لڑاتا ہوں بار بار
شاید مسافروں کو بھٹکنا ہی راس ہے
ویسے تو راستا ہی سجھاتا ہوں بار بار
ہر بار کوئی اور نکلتا ہے وہ‘ ظفرؔ
ورنہ تو اُس کو ڈھونڈ کے لاتا ہوں بار بار
آج کا مطلع
مرنے والے مر جاتے ہیں
دنیا خالی کر جاتے ہیں