اپنی دھرتی کی دلفریب شان و شوکت کا گرویدہ ہوں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''اپنی دھرتی کی دلفریب شان و شوکت کا گرویدہ ہوں‘‘ بلکہ اپنی شان و شوکت کا اس سے بھی زیادہ گرویدہ ہوں کہ ملکی شان و شوکت اس کے سامنے چیز ہی کیا ہے‘ اور جب مجھے یاد دلایا جاتا ہے کہ میں واقعی وزیراعظم ہوں‘تو میری گرویدگی دوچند ہو جاتی ہے؛ اگرچہ بعض وفاقی و پنجاب کے صوبائی وزراء کا بھی میں گرویدہ ہوں‘ جنہوں نے خوب رونق لگا رکھی ہے؛ اگرچہ یہ رونق کنٹینر والی رونق کے ہم پلّہ تو نہیں ہے‘ جبکہ کنٹینر میرے رگوں میں آج بھی اُسی طرح رواں دواں ہے اور تقریر کرتے وقت یہی یاد رہتا ہے کہ میں کنٹینر پر ہی بول رہا ہوں اور اُمید ہے کہ دوبارہ کنٹینر پر چڑھنے کی سعادت بھی حاصل ہوگی؛ ا گرچہ جو روحانی سعادت مجھے حاصل ہے‘ اس کے بعد کسی اور سعادت کی کوئی ''گنجائش نہیں‘‘ ہے‘ تاہم‘ اگر ضرورت پڑے تو آدمی ہر طرح کی گنجائش نکال بھی سکتا ہے‘ جبکہ بعض اتحادی جماعتیں اپنے لیے طرح طرح کی گنجائش نکالنے کیلئے اتحاد سے نکلنے کی دھمکیاں بھی دے رہی ہیں۔ آپ اگلے روز ٹویٹ پر پیغام نشر کر رہے تھے۔
ملک میں جمہوریت کیلئے قربانیاں سب سے
زیادہ پیپلز پارٹی نے دیں: بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ''ملک میں جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں پیپلز پارٹی نے دیں؛ اگرچہ اس طرح کی مزید قربانیاں دینا تو ہمارے بس میں نہیں‘ تاہم جو قربانی والد صاحب دینے کے لیے جا رہے ہیں‘ میعاد کے لحاظ سے وہ سب سے زیادہ ہوگی‘ کیونکہ جہاں جعلی اکاؤنٹس شمار و قطار سے باہر ہیں‘ وہاں اُن کے نتائج بھی اُتنی ہی کثرت سے نکلیں گے‘ جبکہ ہر بات کا نتیجہ نکالنا ویسے ہی اُن پر ختم ہے؛ اگرچہ بعض ناگوار واقعات اُنہیں زحمت دیئے بغیر خود ہی نکل آتے ہیں‘ جبکہ جو ہونا ہے‘ وہ تو ہونا ہی ہے‘ وہ خلائی مخلوق کے خلاف دل کی بھڑاس تو کھل کر نکال رہے ہیں‘ نیز ایک بار پہلے جب انہوں نے ایسا کیا تھا تو اینٹ سے اینٹ بجانے کی بجائے وہ دبئی چلے گئے تھے‘ کیونکہ ان کی اطلاع کے مطابق ؛دبئی میں دستیاب ہونے والی اینٹیں نسبتاً زیادہ بجتی ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ کوئی مسحور کن ساز بج رہا ہے‘ کیونکہ یہ ساز زندگی کے ساز کی طرح نہیں ہوتا کہ بج بھی رہا ہوتا ہے اور بے آواز بھی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ضرورت پڑنے پر نواز شریف میڈیا میں آئیں گے: خواجہ آصف
نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف ضرورت پڑنے پر میڈیا میں آئیں گے‘‘ کیونکہ جب ڈیل وغیرہ کا معاملہ لٹکا ہوا ہے‘ تو اصولی طور پر اُنہیں ویسے بھی خاموش ہی رہنا چاہئے ‘تاکہ مُنہ سے کوئی اُلٹی سیدھی بات نہ نکل جائے؛ حالانکہ مُنہ صرف کھانے کے لیے ہوتا ہے‘ الٹی سیدھی باتیں نکالنے کے لیے نہیں ‘کیونکہ اس سے پہلے‘ یعنی بطور خاص جی ٹی روڈ تقریروں کے دوران وہ ایسی باتیں جی بھر کے مُنہ سے نکال چکے ہیں؛ اگرچہ وہ سیدھی کم اور اُلٹی زیادہ تھیں‘ جبکہ آپ کھانا کھانے کے دوران جو باتیں کرتے ہیں‘ وہی کسی قدر سیدھی ہوتی ہیں ‘کیونکہ موصوف کھانا کھانے کے دوران کوئی بات نہیں کرتے ‘جبکہ وہ کھانا پوری تندہی سے کھاتے ہیں‘ ویسے بھی‘ جب وہ ایک کام کر رہے ہوں‘ تو پھر دوسرے کام کی کوئی گنجائش ہوتی ہی نہیں‘ جیسا کہ خدمت کے دوران وہ اور کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے؛اگرچہ قوم کو جو ہاتھ انہوں نے دکھایا ہے‘ اس کی مثال کہیں مشکل ہی سے ملے گی۔ آپ اگلے دن اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کرپشن میں صرف دو پارٹی سربراہان نشانے پر ہیں: فضل الرحمن
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کرپشن کاالزام سیاسی ہتھیار ہے‘ صرف دو پارٹی سربراہان نشانے پر ہیں‘‘ حالانکہ میں بھی ماشاء اللہ پارٹی سربراہ ہوں‘ لیکن مجھے کوئی پوچھتا تک نہیں ہے۔صرف ایک بار کسی انکوائری کی خبر چھپی تھی‘ اس کے بعد سب کو گویا سانپ ہی سونگھ گیا ؛حالانکہ یہ بھی سانپ کی خاص رعایت تھی‘ ورنہ سانپ تو کاٹتا ہے۔ سونگھنے کی اسے کیا ضرورت ہے‘ لہٰذا جس سانپ نے سب کو سونگھا ہے‘ میں اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں؛ اگرچہ میں نواز شریف اور زرداری کو تو قریب نہیں لا سکا‘ سانپ کی مذمت تو کر ہی سکتا ہوں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر مصروف گفتگو تھے۔
حکومت صابن پر کھڑی ہے‘ کسی وقت بھی پھسل سکتی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت صابن پر کھڑی ہے‘ کسی وقت بھی پھسل سکتی ہے‘‘ حالانکہ صابن ہاتھ مُنہ دھونے کے لیے ہوتا ہے یا نہانے کے لیے‘ اور صابن کا یہ انتہائی غلط استعمال ہے‘ بلکہ صابن کی اچھی خاصی توہین ہے ‘کیونکہ پھسلنے کے لیے جہاں برف اور کئی دیگر اشیاء ‘مثلاً :کیچڑ وغیرہ بھی دستیاب ہیں تو صابن پر سے پھسلنے کی کیا ضرورت ہے؟ حتیٰ کہ اگر چاہے تو حکومت کیلے کے چھلکے پر سے بھی پھسل سکتی ہے کہ کیلا کھائے اور پھر اس پر سے پھسل پڑے‘ یعنی آم کے آم‘ گھٹلیوں کے دام؛ اگرچہ کیلا بھی دام کے بغیر نہیں ملتا‘ لیکن اس کمر توڑ مہنگائی میں کیلا بھی کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے کہ آدمی ٹوٹی ہوئی کمر کی مرمت کرائے یا کیلے کھانے کا اتنا مہنگا شوق پورا کرے‘ جبکہ شوق کا تو کوئی مول ہی نہیں ہوتا‘ یعنی یہ واحد چیز ہے‘ جو مفت دستیاب ہے‘ اسی لیے یہاں پر کام شوقیہ ہی کیا جاتا ہے ‘جبکہ حکومت بھی یہاں کسی کام کے بغیر نہایت ذوق و شوق سے کی جا رہی ہے‘ آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
نا خوش نہیں کہیں بھی‘ سب کی نظر میں خوش ہیں
ہم اپنے گھر میں خوش ہیں‘ وہ اپنے گھر میں خوش ہیں