سانحۂ ساہیوال‘ انصاف ہوگا اور نظر بھی آئے گا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''سانحۂ ساہیوال پر انصاف ہوگا اور ہوتا ہوا نظر بھی آئے گا‘‘ البتہ وہ اتنا باریک ہوگا کہ اسے دیکھنے کے لیے دوربین ‘بلکہ خوردبین سے کام لینا پڑے گا‘ اور یہ آلات بازار میں دستیاب ہیں‘ بلکہ میں نے خود بھی خرید لیے ہیں‘ تاکہ یہ ا نصاف میں بھی دیکھ سکوں‘ جبکہ اس پر ہمارے وزیر قانون جناب راجہ بشارت اس پر تسلی بخش حد تک روشنی بھی ڈال چکے ہیں اور ان کے بیان سے بھی ہونے والے انصاف کا کافی اندازا ہو سکتا ہے‘ جبکہ ویسے بھی ہمارا سارا کام اندازوں ہی پر چل رہا ہے‘ کیونکہ نیا نیا کام ہے‘ جسے مکمل طور پر سیکھنا بیحد ضروری ہے اور آدمی تو عمر بھر سیکھتا رہتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہماری بھی عمر عزیز اسے سیکھنے سکھانے ہی میں تمام ہو جائے‘ کیونکہ جو کام شروع کیا جائے ‘اسے مکمل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ؛چنانچہ ہم اپنی میعاد پوری کر کے ہی عوام کو داغِ مفارقت دے کر فارغ ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
شہباز شریف مفاہمت یا این آر او نہیں چاہتے: خواجہ آصف
سابقہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف مفاہمت یا این آر او نہیں چاہتے‘‘ اور صاف معافی ہی کے طلبگار ہیں‘جبکہ اپنے دور میں بھی وہ چوہدری نثار علی خان کے ہمراہ راتوں کو چھپ چھپ کر اسٹیبلشمنٹ سے ملاقاتیں کرتے اور اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے ہیں‘ اور وفادار لوگوں کی مدد نہ کرنا سرا سر زیادتی ہے‘ جبکہ افسر شاہی میں جو حضرات ہمارے وفادار تھے‘ ان کے ساتھ ہم بھی کافی فراخدلی سے پیش آتے رہے ہیں؛ حتیٰ کہ اب اُن میں سے کئی ایسے بھی ہیں‘ جو خوشحالی کے ضمن میں ہم سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں اور وہ چار ہاتھوں سے خدمت کرنا چاہتے تھے‘ لیکن دو ہاتھوں پر ہی انہیں اکتفاء کرنا پڑا‘ کیونکہ ویسے بھی آدمی کو لالچ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور تھوڑے پر ہی گزارہ کر لینا چاہئے ‘کیونکہ تھوڑا ہی اپنے آپ بڑھ کر زیادہ ہو جاتا ہے‘ اس لیے کمی بیشی پر زیادہ فکرمند ہونا غیر مشقتی ہونے کی نشانی ہے‘ تاہم آپ پیچھے کوئی نشانی یا ثبوت چھوڑنے کی غلطی سے بھی اجتناب کرنا ضروری ہے‘ تاکہ احتساب ادارے سر ہی ٹکراتے رہ جائیں اور کوئی کھوج نہ لگا سکیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی کو عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکتا: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کو عوام دے دلوں سے نہیں نکالا جا سکتا‘‘ اگرچہ اصل پارٹی کا تو اب کہیں نام و نشان تک نہیں ملتا‘ جبکہ کافی تو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور اب اُن کی بجائے صرف خاکسار اور کچھ معززین کے علاوہ میرے فرنٹ مین باقی رہ گئے ہیں‘ جو اپنا جتھا بنا کر کام چلا رہے ہیں؛چنانچہ ان مجبوریوں کی بناء پر عوام ہمارے دلوں سے دُور ہی رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں؛ اگرچہ ہم عوام کے دلوں میں گھسنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں ‘صرف سر ٹوٹتا ہے اور کامیابی حاصل نہیں ہوتی‘ تاہم‘ اقتدار میں آنے کا جو اصل مقصد ہے‘ ہم اُسے بخوبی پورا کر رہے ہیں؛ چنانچہ ہم نے بھی عوام پر تین حرف بھیج دیئے ہیں اور انتخابات میں ہر بار ہمارے گماشتے کام دکھایا کرتے ہیں ۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں علی مدد جتک سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہم فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کے حق میں نہیں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''ہم فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کے حق میں نہیں ہیں‘‘ حتیٰ کہ جو کچھ ہم اپنے قائد سمیت اپنے دور میں کرتے رہے ہیں‘ سچی بات ہے‘ ہم تو اس کے بھی حق میں نہیں تھے‘ لیکن چونکہ ادارے ہمارے ہاتھ میں تھے‘ اس لیے جو کچھ کیا اندھا دُھند ہی کیا ‘جبکہ اس وقت ملک میں اندھوں کی تعداد تو کافی تھی‘ لیکن دُھند اتنی نہیں ہوا کرتی تھی‘ جبکہ اندھوں کے علاوہ جو لوگ تھے‘ وہ عقل کے اندھے تھے‘ اس لیے ہماری ریوڑیاں بھی اپنوں ہی میں بٹتی تھیں‘ نیز یہ کہ ہر چیز بانٹ کر ہی کھانی چاہیے‘ کیونکہ اس سے ہاضمہ بھی درست رہتا ہے؛ اگرچہ ہاضمہ تو ہم سب کا لکڑ ہضم پتھر ہضم تھا؛ چنانچہ ملک میں پتھر بھی خالی خالی ہی رہ گئے تھے۔ آپ اگلے روز گوجر خاں میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکمرانوں نے مفادات کیلئے پولیس کو غنڈا فورس بنا دیا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں نے سیاسی مفادات کے لیے پولیس کو غنڈا فورس بنا دیا‘‘ اگرچہ سانحۂ ساہیوال میں اصل شریک لوگ ایک سکیورٹی ادارے کے بھی تھے‘ لیکن وہ پولیس والوں کو باقاعدہ منع کرتے رہے کہ اس حرکت سے باز آ جائیں‘ لیکن انہوں نے ایک نہ سُنی‘ جس طرح آج کل میری کوئی نہیں سنتا ‘مثلاً :میں زرداری اور نواز شریف کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتا رہا‘ لیکن انہوں نے کان نہ دھرا؛ چنانچہ میں کان لپیٹ کر واپس آ گیا‘ لیکن مجھے غچہ دے کر وہ اپنے آپ ہی اکٹھے ہو گئے‘جس کی وجہ ان دونوں کی کنجوسی تھی کہ کہیں اس کا معاوضہ نہ دینا پڑ جائے؛ حالانکہ وہ بھی کچھ اتنا زیادہ نہ تھا اور انہیں میری بیروزگاری ہی کا کچھ خیال کرنا چاہیے تھا اور اس سے زیادہ قطع رحمی میں نے آج تک نہیں دیکھی ‘جبکہ اس سے زیادہ مفلوک الحالی کا بھی آج تک شکار نہ ہوا تھا‘ خدا کسی کو کسی کا محتاج نہ کرے۔ آپ اگلے روز اپنی پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
دل کے اندر جنہیں محصور سمجھتا رہا میں
چل دئیے وہ بھی‘ظفر‘ؔ توڑ کے گھیرے میرے