علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے روڈمیپ تیار کر لیا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''علاج کی جدید سہولتیں فراہم کرنے کے لیے روڈمیپ تیار کر لیا ہے‘‘ جس کا مطلب ہے کہ علاج کے لیے مریض کو ہسپتال جانے کے لیے کون سی سڑک استعمال کرنی چاہیے ‘کیونکہ مرض کا سڑک سے گہرا تعلق ہے اور اگر غلط سڑک سے جایا جائے تو مریض پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے‘ جیسا کہ بعض شرپسندوں کے مطابق ہم بھی غلط سڑک پر چل رہے ہیں ؛حالانکہ ہم مریض نہیں ‘ اس لیے غلط سڑک کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے‘ تاہم احتیاطی طور پر ہم سیدھی سڑک کی تلاش میں ہیں‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بعض اوقات سیدھی سڑک بھی غلط ثابت ہوتی ہے‘ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ سڑکوں کے موضوع پر باقاعدہ تحقیق ہونی چاہیے‘ کیونکہ جہاں قوم ہماری کارکردگی پر تحقیق کر رہی ہے اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا‘ وہاں کارکردگی کو بھی ہماری کچھ سمجھ نہیں آ رہی‘ اس لیے ہم دونوں میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے پر گلہ نہیں ہے‘ کیونکہ ہم شکایتی ٹٹو نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے والے بھگتیں گے: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے والے بھگتیں گے‘‘ جس طرح ہمیں اقتدار دلوانے والے بھگتیں گے ‘کیونکہ یہ دنیا ہے اور یہاں ہر شخص کچھ نہ کچھ بھگتنے کے لیے آیا ہے اور اپنا بھگتاں بھگتانے کے بعد اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے اور اگر اس نے شادی نہ کی ہوئی ہو تو قیامت والے دن اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے شادی کیوں نہیں کی؟ چنانچہ میں ابھی سے کوئی معقول بہانہ سوچ رہا ہوں‘ زندگی ویسے بھی بہانہ بازی میں ہی گزر جاتی ہے اور یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ ہم زندگی گزارتے ہیں یا زندگی ہمیں گزار رہی ہوتی ہے؛ چنانچہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہے کہ میں دو مہینے ریل گاڑی میں ہی گزاروں گا؛ بشرطیکہ ریل گاڑی کو کوئی اعتراض نہ ہو‘ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم زندگی کی گاڑی ہی میں سفر کر رہے ہوتے ہیں‘ جو بعض اوقات مال گاڑی میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے ۔ آپ اگلے روز کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اخباری صنعت کے مسائل سے واقف ‘ حل نکالیں گے: علیم خاں
پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خاں نے کہا ہے کہ ''اخباری صنعت کے مسائل سمجھتے ہیں‘ اس کا حل نکالیں گے‘‘ اگرچہ میرا یہ محکمہ نہیں ہے‘ لیکن افراتفری کا عالم ہے اور ہر وزیر کسی دوسرے وزیر کے کام میں لگا ہوا ہے‘ کیونکہ کام سے ناواقف ہیں‘ اس لیے محکمے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ہماری یہ کوشش بھی ہے کہ ہر وزیر ہر محکمے سے اچھی طرح واقف ہو جائے اور ہر محکمے کو ہمیں بھگتنے کی عادت پڑ جائے ‘کیونکہ محکمے بھی ہماری طرح کرنا کچھ نہیں چاہتے‘ اس لیے نہ ہم ان سے کوئی کام لیتے ہیں اور نہ وہ ہمیں کوئی زحمت دیتے ہیں اور بقول شاعر ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں‘ سب مزے میں ہیں
جبکہ دوسرے محکمے میں کام کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ناکامی کی صورت میں یہ کہا جا سکے کہ ہمارا تو یہ محکمہ ہی نہیں تھا‘ وغیرہ وغیرہ اور امید ہے کہ یہی سہولت محکموں کو بھی حاصل ہو جائے گی ۔آپ اگلے روز لاہور میں اے پی این ایس والوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
سانحہ ساہیوال کے ملزموں کو چوک میں پھانسی دی جائے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''سانحہ ساہیوال کے ملزموں کو چوک میں پھانسی دی جائے‘‘ اگرچہ اس سے پہلے والد صاحب نے زرداری صاحب کو چوک میں لٹکانے کا اعلان کیا تھا‘ لیکن اس پر اس لیے عمل نہ ہو سکا کہ کسی مناسب چوک کی نشاندہی نہیں ہو سکی تھی اور نہ ہی کسی سڑک کا انتخاب ہو سکا تھا جس پر موصوف کو گھسیٹا جانا تھا؛حتیٰ کہ وہ چھرا وغیرہ بھی دستیاب نہ ہو سکا تھا‘ جس سے اُن کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنی تھی اور اگر یہ سب چیزیں دستیاب ہو جاتیں تو انہوں نے یہ سب کچھ کر کے بھی دکھا دینا تھا‘ کیونکہ وہ اپنی بات کے پکے ہیں اور ہر کام نہایت پختہ طریقے سے سرانجام دیتے ہیں‘ جبکہ کچھ ادراے چونکہ خود عقل کے کچے ہیں اس لیے انہیں پکے کام پسند نہیں اور وہ اِدھر اُدھر انتقامی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں‘ اس لیے انہیں اپنے طرزِ عمل کو پختہ بنانے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا (ندا فاضلی)
آدمی خواب میں تجھے دیکھے
اور پھر خواب مختصر ہو جائے
اچھے لوگوں سے مت ملا کیجے
یہ نہ ہو آپ پر اثر ہو جائے (شاہد بلال)
یہ میرا کچھ نہ ہونا درج کر لو
اگر اختر شماری ہو رہی ہے (فرحت احساس)
فلک کی دوسری جانب اُچھالتا ہوا اشک
میں اپنا رنج اُدھر بھی روانہ کرتا ہوں (قمر رضا شہزاد)
فراق و وصل میں یوں جذب ہوتا جاتا تھا
میں چُومتا تھا اُسے اور روتا جاتا تھا (عدنان محسن)
سفر تمام ہوا‘ لوگ تھک کے آ گئے تھے
کہ زادِ راہ بھی رستے میں رکھ کے آ گئے تھے
خبر سبھی کو تھی وحشت کے اُس جزیرے کی
کئی خود آئے تھے‘ اکثر بھٹک کے آ گئے تھے (دانش حسان)
میں تو ہو کر بھی گھر نہیں ہوتا
وہ نکل کر بھی کم نکلتا ہے (علی معین)
میں نے تیری خاطر دُنیا چھوڑی تھی
تیرا مجھ کو چھوڑ کے جانا بنتا ہے (ناصر عباس)
آج کا مقطع
اک توازن تو مجھ میں ہے کہ ظفرؔ
جسم دبلا ہے‘ عقل موٹی ہے