ماہنامہ الحمرا (سالنامہ)
شاہد علی خاں کی ادارت میں مثالی باقاعدگی سے لاہور سے شائع ہونے والے ماہنامہ ''الحمرا‘‘ کا سالنامہ شائع ہو گیا ہے۔ 331 صفحات پر مشتمل اس جریدے کی قیمت 800روپے مقرر کی گئی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے یہ پرچہ ہر ماہ 12تاریخ کو آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ اس پر اس کے قارئین کو تعجب بھی ہے اور خوشی بھی۔ یہ بات شروع میں عرض کر دوں کہ حصۂ غزل کا معیار بہتر بنانے کے لیے جدید اور بہتر شعراء کا کھوج لگانا ضروری ہے اور ایسے خواتین و حضرات جنہوں نے زندگی بھر اچھا شعرنہیں کہا۔ ان کے کلامِ بلاغت نظام سے پرچے کے صفحے سیاہ کرنے سے گریز کیا جائے ‘تاکہ یہ ملک میں شائع ہونے والے عمدہ پرچوں کے برابر ہو سکے‘''شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات‘‘تاہم حصۂ غزل میں سے جو چند شعر نکالے ہیں‘ سب سے پہلے وہی پیش ہیں:
تلاشِ منزل جاناں تو اک بہانہ تھا
تمام عمر میں اپنی طرف روانہ تھا
میں اُس کو حشر میں کس نام سے صدا دیتا
کہ میرا اُس کا تعارف تو غائبانہ تھا (امجد اسلام امجد)
ہیں طائرانِ نو ا سنج جن سے
کبھی قفس ہیں کبھی شاخ و آشیاں آباد (اسلم انصاری)
یہ بھی کچھ کم نہیں کمال مرا
تجھ پہ ظاہر ہوا زوال مرا
تُو لبوں سے اگر لگا لیتا
میری پیالے میں تھا سوال ترا(نذیر قیصر)
وہ آئے گھٹا بن کر یا آئے ہوا بن کر
پیڑوں کی طرح اُس کے رستوں میں رہیں گے ہم (حسن عباسی)
ابتدا حمد و نعت سے کی گئی ہے۔ ستیہ پال آنند کی تین نعتوں میں سے دو پیش خدمت ہیں:
حضوراکرمؐ
فقیر اک ہائے لنگ لے کر/ سعادتِ حاضری کی خاطر/ ہزاروں کوسوں سے آپؐ کے در پہ آ گیا ہے/ نبیٔ برحق یہ حاضری گرچہ نامکمل ہے/ پھر بھی اس کو قبول کیجیے/ حضورؐ آقائے محترم/ یہ فقیر اتنا تو جانتا ہے کہ قبلۂ دید صرف/ اک فاصلے سے اس کو روا ہے/ اس کے نصیب میں مصطفیٰ کے در کی/ تجلیاں دور سے لکھی ہیں/ نبی ٔاکرم وہ سایۂ رحمتِ پیمبر/ جو صف بہ صف سب نمازیوں کے سروں پہ ہے/ اُس کا ایک پر تو ذرا سی بخشش ہے/ ذرا سا فیضانِ غفو و رحمت/ اسے بھی مل جائے جو شہ مرسلین/ دستِ دُعا اُٹھائے کھڑا ہے اک فاصلے پہ لیکن/ نمازیوں کی صفوں میں شامل نہیں ہے آقا!
پیغام رساں
وہ اکیلے تھے/ حبیب کبریا‘ انوارِ کل شاہِ امم‘ حضرت محمدؐ/ رات تھی اور اُن کا بستر/ ایک بیحد کھردرا سا بوریا تھا/ فرش ناہموار تھا غارِ حرا کا/ غار تیرہ تھا مگر رُوئے مبارک روشنی کا قمقمہ تھا/ بند تھیں آنکھیں‘ مگر گہرائی میں اترے ہوئے/ وہ سُن رہے تھے/ جانی پہچانی سی اک آواز جو لمحہ بہ لمحہ/ پاس آتی جا رہی تھی/ روشنی کے نرم گالے ‘ برف سے اُجلے گرے روئے مبارک/ مطلع نور ہدیٰ پر/ اور شہنشاہِ اُمم تو خود سراپا روشنی تھے/ ناملائم کالی کملی/بوریے کی نور بافی/ اور اُن کی بیخ وبن میں/ نورِ عالمتاب کی کرنیں یکایک یوں سمائیں/ غار کے منہ سے ہویدا/ روشنی ہی روشنی چاروں طرف پھیلی جہاں میں/ اور جب آواز پاس آئی تو پوچھا/ آ‘ فرشتے/ بول کیا پیغام لایا ہے مرے مالک سے امشب؟
مقالے پروفیسر حمید احمد خاں‘ پروفیسر فتح محمد ملک‘ محمد اکرام چغتائی‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘ جمیل یوسف‘ مسلم شمیم‘ ڈاکٹر اے بی اشرف (انقرہ) اور بشریٰ رحمان کے قلم سے ہیں۔ اس کے بعد گوشۂ ڈاکٹر رؤف خیر ہے۔ مقالے پروفیسر حسن عسکری کاظمی‘ ڈاکٹر خالق تنویر‘ پروفیسر ڈاکٹر عطش دُرانی‘ عذرا اصغر‘ ثناء رشید‘ محمد حامد سراج‘ ڈاکٹر اے بی اشرف‘ غالب عرفان‘ سید معراج جامی‘ اسلم گورداس پوری‘ ڈاکٹر سید امجد حسین (امریکہ) ڈاکٹر سکندر حیات میکن‘ ڈاکٹر مسرت بانو‘ ملک مقبول احمد نے تحریر کیے ہیں ‘جبکہ نظم نگاروں میں ستیہ پال آنند‘ اسلم انصاری‘ امجد اسلام امجد‘ قیصر نجفی‘ عاصی رضوی‘ رشید آفرین‘ طالب انصاری اور دیگران شامل ہیں۔ آپ بیتی اور متفرق میں اسلم کمال‘ سید پرویز‘ قمر زمان‘ جاوید احساس‘ طاہر جاوید اور شیر افضل جعفری‘ جبکہ سفر نامے سلمیٰ اعوان‘ شبہ طراز‘ سیما پیروز‘ ڈاکٹر عظمیٰ سلیم اور تسنیم کوثر کے قلم سے ہیں۔
حصۂ غزل میں خاکسار کے علاوہ امجد اسلام امجد‘ اسلم انصاری‘ سلطان سکون‘ جمیل یوسف‘ نذیر قیصر‘ قیصر نجفی‘ کرشن کمار طُور‘ حسن عسکری کاظمی‘ غالب عرفان‘ اسلم گورداسپوری‘ عاصی رضوی‘ حسن عباسی‘ رُستم نامی اور دیگران ہیں۔ افسانہ نگاروں میں مسعود مفتی‘ اے خیام‘ بشریٰ رحمان‘ آغا گل‘ عذرا اصغر‘ حامد سعید اختر‘ نجیب عمر‘ نیلم احمد بشیر اور دیگران شامل ہیں۔
تبصرے ڈاکٹر خالق تنویر‘ غالب عرفان‘ نسیم سحر‘ سید معراج جامی‘ ریاض ندیم نیازی‘ ملک شفقت حیات اعوان‘نیر رانی شفق اور ڈاکٹر اسحق وردگ کے تحریر کردہ ہیں۔ آخر میں محفل احباب کے عنوان سے قارئین کے خطوط ہیں۔ ٹائٹل حسب ِمعمول اسلم کمال نے بنایا ہے۔ ''جھل ملیاں‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ مدیر کے قلم سے ہے اور ڈاکٹر رؤف خیر کی دو تصویر ہیں۔
آج کا مطلع
ملتان کے بدلے کوئی لاہور کی تصویر
بھیجی ہے مجھے اس نے کسی اور کی تصویر