"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ضمیرؔ طالب کی تازہ شاعری

پارٹی حوالے کرنا حادثہ تھا‘ عمران حادثاتی وزیراعظم ہیں: زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''پارٹی میرے حوالے کرنا حادثہ تھا‘ عمران بھی حادثاتی وزیراعظم ہیں‘‘ جبکہ مجھے تو بینظیر کی وصیت تیار کرنے پر سب کچھ ملا تھا‘ عمران کا تو مُفتا لگ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ منی لانڈرنگ کا الزام اس سے بھی بڑا ہے‘ تاہم میں نے اس میں اتنے بینکوں کا معما ڈال دیا ہے کہ کسی کا باپ بھی ان کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا‘ لیکن جس طرح بے چاری ایان علی پھنسی ہیں‘ کوئی دشمن بھی اس طرح نہ پھنسے؛ حالانکہ وہ کوئی اتنی بڑی رقم بھی ساتھ نہیں لے جا رہی تھی‘ جبکہ بڑی بڑی رقمیں تو پہلے ہی لے جا چکی تھی اور گڑے مُردے اکھاڑنا کوئی اچھی بات نہیں‘ جبکہ اصل کام تو مُردوں کی بجائے زندے دکھا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
ہم عوام دشمن اقدامات کو روکیں گے: حمزہ شہباز
مسلم لیگ کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''ہم عوام دشمن اقدامات کو روکیں گے‘‘ یعنی جو اقدامات ہمارے خلاف اٹھائے جا رہے ہیں‘ ان سے زیادہ عوام دشمن اقدامات اور کیا ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ ہم عوام کے نمائندے ہیں ‘بلکہ عوام بھی ہم ہی ہیں ‘کیونکہ سارے عوام تایا جان کے دل میں بستے ہیں اور تایا جان ان سے کرایہ بھی نہیں لیتے؛ حالانکہ آج کل وہ انتہائی ضرورت مند بھی ہیں‘ کیونکہ سارے پیسے تو فلیٹس پر لگا بیٹھے ہیں اور وکیلوں کی فیسیں دے دے کر تو وہ بالکل کنگلے ہو چکے ہیں‘ لیکن چونکہ انہیں سزا یاب کروانے میں وکیلوں ہی کا کردار سب سے نمایاں ہے‘ اس لیے وہ فیسوں میں ادا کی گئی کروڑوں روپوں کی واپسی کا بھی مطالبہ کرنے والے ہیں‘ جبکہ قیدیوں سے پیسے لینا ویسے بھی قطع رحمی کی ایک زندہ مثال ہے؛ چنانچہ میں‘ سلمان اور اباجان وکیلوں سے تحریری معاہدہ کروائیں گے کہ اگر فیصلے ہمارے خلاف آ گئے ‘تو نا صرف فیس واپس ہوگی ‘بلکہ ہرجانے بھی ادا کریں گے‘ کیونکہ یہ ہمارے خون پسینے کی کمائی ہے۔ آپ اگلے روز مختلف ن لیگی رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
عمران خان کو سیاست کا پتا ہی نہیں: خورشید علی شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو سیاست کا پتا ہی نہیں‘‘ جبکہ سیاست کا پتا صرف ہمیں ہے ‘جو ہم عمران خان کو سکھانے کیلئے تیار ہیں‘ تاہم اس کیلئے بے حد دلیری درکار ہے‘ کیونکہ سیاست میں جو کام کرنا پڑتے ہیں اور ان کے نتیجے میں جو سختیاں اٹھانا پڑتی ہیں‘ عمران خان سے اس جوانمردی کی توقع نہیں کی جا سکتی ؛حالانکہ اس میں بھی بڑے بڑے القاب ملتے ہیں مثلاً مرد آہن اور مسٹر سینٹ پرسینٹ وغیرہ‘ علاوہ ازیں سرکاری مہمان خانے میں جو سہولتیں اور عیاشیاں میسر آئی ہیں‘ ان کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے‘ لیکن سنا ہے کہ عمران خان کے تو خواب دیکھنے پر بھی پابندی ہے کہ کہیں وہ کوئی غیر روحانی اور غلط خواب نہ دیکھ لیں ‘جبکہ زرداری صاحب پر خواب دیکھنے کی کوئی پابندی نہیں ہے‘ بلکہ وہ تو اس کی تعبیر بھی خود ہی نکال لیتے ہیں اور اگر انہیں منی لانڈرنگ والے مقدمات میں کوئی لمبی سزا ہو گئی اور سیاست سے بھی چھٹی ہو گئی تو وہ خوابوں کی تعبیریں نکال نکال کر ہی اپنا خرچہ پورا کیا کریں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کے ایک بیان پر ردعمل دے رہے تھے۔
شہباز شریف اور عثمان بزدار میں کوئی مقابلہ نہیں؟فیاض چوہان
وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ شہباز شریف اور عثمان بزدار کام وغیرہ میں یقین نہیں رکھتے اور ہر وقت دنیا کی بے ثباتی پر غصہ کرتے رہتے ہیں اور کام ان کا اپنے آپ ہی چلتا رہتا ہے‘ جبکہ وہ حلیم الطبع بھی اتنے ہیں کہ افسران کو حکم نہیں دیتے‘ صرف مشورے یا درخواست سے کام لیتے ہیں‘ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا چند روزہ ہے ‘اس لیے عہدے کی معتبری دکھانے کی کیا ضرورت ہے‘ ویسے اگر کوئی حکم دے بھی دیں تو ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی ہو‘ کیونکہ بیوروکریسی بھی صاحب موصوف کی درویش طبیعت سے اچھی طرح واقف ہے؛اگرچہ خود بزردار صاحب بیورو کریسی کے ہتھکنڈوں سے ابھی آشنا نہیں اور انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ضمیر طالب کی تازہ شاعری:
دل تھا جو مرے سینے میں دھڑکا ہے کہیں اور
پانی ہے کہیں اور تو دریا ہے کہیں اور
تعبیر کہاں‘ خواب ہی یک جا نہیں اترا
آدھا ہے کہیں اور تو آدھا ہے کہیں اور
کرنا نہیں آیا مجھے اظہارِ محبت
کرتا ہوں کہیں اور تو ہوتا ہے کہیں اور
اس شخص کی بھی کچھ سمجھ آتی نہیں مجھ کو
ہوتا ہے کہیں اور تو ملتا ہے کہیں اور
کچھ تو مجھ کو دیکھ کر ہوتے ہیں خوش
اور کچھ ہوتے نہیں ہیں مل کے بھی
میرے جیسا کوئی بھلا کیا ہو
اپنے جیسا تو خود نہیں ہوں میں
غور ہی اب کیا ہے تم نے دوست
ورنہ کب سے کہیں نہیں ہوں میں
کوئی بھی حال مرا پوچھتا نہیں ہے اب
مگر مقام یہ محنت سے ہاتھ آتا ہے
توڑنا دل کا نہیں سیکھنے میں عمر لگی
اب کہیں جا کے ہنر ہاتھ نہیں آیا ہے
ضمیرؔ میں نے اسے تحفے میں گھڑی کیا دی
اب اس کے پاس مرے واسطے بھی وقت نہیں
آج کا مقطع
میں آہ بھر کے جو خاموش ہو گیا ہوں‘ ظفرؔ
مری وضاحت اسی مختصر کے اندر ہے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں