"ZIC" (space) message & send to 7575

’’مکالمہ‘‘ کا سالنامہ

مبین مرزا کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والے جریدے ''مکالمہ‘‘ کا سالنامہ شائع ہو گیا ہے۔ یہ کتابی سلسلہ نمبر 36 ہے۔ مجلد اور سفید کاغذ پر چھپنے والے اس رسالے کی ضخامت پونے چھ سو صفحات اور قیمت 1500روپے ہے۔ ٹائٹل دیدہ زیب اور گٹ اپ عمدہ۔ آغاز افسانوں سے کیا گیا ہے‘ جبکہ افسانہ نگاروں میں اسد محمد خاں‘ مسعود اشعر‘ رشید امجد‘ فاروق خالد‘ اخلاق احمد اور طلعت حسین شامل ہیں۔ حصہ غزل میں توصیف تبسم‘ خورشید رضوی‘ اکبر معصوم اور یہ خاکسار۔ نظم گوؤں میں خواجہ رضی حیدر‘ جلیل عالی‘ عطا الرحمن قاضی اور جمیل ادیب سید ہیں۔ ناول کا باب نجم الحسن رضوی کا ہے ‘ جبکہ تصوف پر نجیبہ عارف نے لکھا ہے۔ خصوصی مطالعہ میں پروفیسر فتح محمد ملک نے ''یاسمین حمید کا طرزِ احساس‘‘۔ زاہدہ حنا نے ''ہاجرہ مسرور‘‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے '' جندر: ایک وجودی ناول‘‘ پر خیال آرائی کی ہے۔ امجد طفیل نے ''وحشیوں کا انتظار‘‘ پر ایک نظر ڈالی ہے۔ سلیم صدیقی نے سبوحہ خاں کی دو کتابوں کا احوال بیان کیا ہے اور انجم جاوید نے ''سرحد کے اردو غزل گو شعرا‘‘ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
سوانح میں خاکسار کی ''درگزشت‘‘ کی پندرہویں قسط شامل ہے‘ جبکہ تراجم میں محمد سلیم الرحمن کے دو اور احفاظ الرحمن کا ایک مضمون ہے۔ نوآبادیات/ عالمگیریت کے عنوان کے تحت پروفیسر سحر انصاری‘ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی اور ڈاکٹر سید جعفر احمد نے لکھا ہے۔ اس کے بعد ''زبان‘‘ کے عنوان تلے ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے صحتِ زبان کے حوالے سے لکھا ہے‘ جبکہ سفر و حضر‘ کے حصے میں عارف جمیل ہیں اور نقد و نظر میں محمد سلیم الرحمن نے ''پروکلوس‘‘ سید مظہر جمیل نے ''پروفیسر سید ممتاز حسین‘‘ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے ''اُردو افسانے کے اسالیب بیاں‘‘۔ ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے ''بیدی کی کہانیاں‘‘ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے ''ایک چادر میلی سی‘‘۔ ڈاکٹر انیس اشفاق نے ''نیا آہنگ ہوتا ہے مرتب حرف و معنی کا‘‘ پر ڈاکٹر سعادت سعید نے '' سعادت حسن منٹو‘‘ پر‘ یاسمین حمید نے ''ہمارا معاشرہ اور عورت لکھاری‘‘ کے موضوع پر‘ ضیا الحسن نے ''گیارہ ستمبر‘ نیا عالمی نظام اور ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ ناصر عباس نیر نے ''زبان‘ سٹیریواور ادب‘‘ کے موضوع پر‘ قاسم یعقوب نے ''ادبی تنقید کے فنی اصول‘‘ پر‘ خالد فیاض نے ''خواجہ احمد عباس کا ایک منفرد افسانہ‘‘ پر لکھا ہے۔
یادیں/ خاکے/ شخصیات کے زیر عنوان حسن منظر نے ''اوراقِ بوسیدہ‘‘ پروفیسر سحر انصاری نے 'آں ساقی ناماند‘‘ قاضی افضال حسین نے ''نیئر مسعود کی یاد میں‘‘ محمود شام نے ''کچھ سحر انصاری کے حوالے سے‘‘ حسینہ معین نے ''کینسر کے دن ایک یاد‘‘ اصغر ندیم سید نے ''مجنوں جو مر گیا ہے‘‘ خواجہ رضی حیدر نے ''زندگی کی کُلیت کا شاعر: رسا چغتائی‘‘ پر ''محمد حمزہ فاروقی نے '' مولانا اسد القادری‘‘ حمرا خلیق نے ''کچوری والا‘‘ اور سبوحہ خاں نے ''واقعہ سخت ہے اور...‘‘کے موضوع پر خیال آرائی کی ہے‘ جبکہ خالد محمود سنجرانی نے ''منیز نیازی‘ کسی اور شہر میں جا بسا‘‘ پر‘ جبکہ پروفیسر نوشابہ صدیقی نے ''جوشؔ صاحب‘‘ لکھ رہی ہیں‘ لکھ رہی ہیں‘ لکھ رہی انگلیاں‘‘ کے موضوع پر لکھا ہے۔
آخری حصہ تبصروں کا ہے ‘جس میں صبا اکرام نے اردو افسانہ (ڈاکٹر انوار احمد) اور آسماں بھی ہے‘اقبال حیدر (اقبال حیدر)‘اس اندھیرے سے پرے(میر ظفر حسن) ‘انجم جاوید نے میں بس اک دیوار (عثمان جامعی)اور لفظ بولتے ہیں (قیصر نجفی)‘ میرے لہجے میں عیسیٰ بولتا ہے(مجتبیٰ حیدر شیرازی)‘مہر درخشاں (محمد حمزہ فاروقی) پر کرن سنگھ نے‘اور کرن سنگھ ہی نے گنجینہ غالبؔ (ڈاکٹر بصیر ہ عنبرین) پر لکھا ہے‘ جبکہ فیصل لیاقت علی نے جانے پہچانے (اخلاق احمد) پر لکھا ہے۔ اس کے علاوہ مدیر کا حسبِ معمول عالمانہ پیش لفظ ہے۔
اور اب حصۂ غزل میں سے چند منتخب اشعار:
ہم قدم ہیں وہی در و دیوار
ہم کب اپنا مکالمہ بدلتے ہیں
جانے کب بادِ سازگار چلے
یہ تھا بادباں بدلتے ہیں
چارہ گر یادِ یار کا پہلو
بے سبب‘ رائیگاں بدلتے ہیں (توصیف تبسم)
آخر کو آستاں پہ ترے سرنگوں ہوا
دل نے بغاوتوں کے اُٹھائے علم بہت
سخن وری بھی‘ فقیری بھی‘ بادشاہی بھی
سب ایک آگ میں جھونکے گئے بچا نہیں کچھ
جو دل میں رہتا ہے ہاتھوں نے اس کی تصویریں
بدل بدل کے بنائیں مگر بنا نہیں کچھ
نگاہ سے نہیں ہٹتے ترے در و دیوار
یہ میرے ساتھ کہاں چل پڑے در و دیوار (خورشید رضوی)
ہمسائیگی کا جبر ہے‘ رہنا ہے ساتھ ساتھ
سو دیکھ دوستی کے سوا راستہ نہیں
موسم کے رنگ کیسے کھلیں اُس کی آنکھ میں
کمرے کی کھڑکیاں جو کبھی کھولتا نہیں (جمیل عالی)
گُم تو میں شہر میں اپنے ہی ہُوا تھا لیکن
ڈھونڈ کر کوئی ترے شہر سے لایا ہے مجھے
بدل لیتے ذرا لشکر بھی اپنا
مگر تم نے تو بس پرچم ہی بدلا
ہوں ادھورا پڑا ہوا کب سے
تیرے حصے کا کام کاج ہوں میں
وہ آ بھی سکتا ہے موسم اگر بدل جائے
تو اب معاملہ آب و ہوا پہ ٹھہرا ہے(اکبر معصوم)
آج کا مطلع
مشکل میں پڑے ہیں کوئی آساں تو نہیں ہم
ہونے سے ترے خوش ہیں‘ پریشاں تو نہیں ہم

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں