ٹیکس نظام پر اعتماد بحال کیا جائے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''ٹیکس نظام پر اعتماد بحال کیا جائے‘‘ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ‘کیونکہ ایک فیصد لوگ ہی ٹیکس دیتے ہیں اور ننانوے فیصد نہیں دیتے‘ حالانکہ انہیں بھی اکثریت کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور یہی صحیح جمہوری روّیہ بھی ہے اور ٹیکس کی بھی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ جتنے پیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘ خاکسار دوست اور برادر ملکوں سے مانگ کر اکٹھے کر لیتا ہے اور اس طرح پورا کام حسن و خوبی سے چل رہا ہے‘ جبکہ عثمان بزدار کے کام پرمجھے اعتماد سب سے زیادہ ہے‘ جبکہ اعتماد بھی اندھا بلکہ اندھا دھند ہونا چاہیے اور شکر ہے کہ بارشوں کی وجہ سے دُھند میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے‘ کیونکہ میں تو اسے روکنے کے لیے چلّہ کشی پر تیار ہو رہا تھا‘ جو کہ روحانیات کا ایک ا ہم حصہ ہے‘ جبکہ کسٹم افسران کے کام کا اہم حصہ سمگلنگ کے مال کیلئے سہولتیں پیدا کرنا ہے اور باہر سے جو مال آتا ہے ‘اس کی آمدن تو الگ رہی‘ یہاں سے بکروں کے جو ٹرکوں کے ٹرک باہر جاتے ہیں‘ ان افسران کی نیک کمائی ہیں ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں خطاب و پولیو ورکر سے ملاقات کر رہے تھے۔
ہمیں اقتدار سے باہر رکھنے والے پچھتائیں گے: شہباز شریف
سابق خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہمیں اقتدار سے باہر رکھنے والے پچھتائیں گے‘‘ کیونکہ تابعداری کا جتنا ثبوت ہم دے سکتے ہیں‘ کسی اور کے بس کی بات ہی نہیں ہے اور ہم رات کی تاریکی میں چوہدری نثار کے ہمراہ جس طرح چھپ چھپ کر ملاقاتیں کیا کرتے تھے ‘کوئی اور تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا؛ اگرچہ تصور میں ہم اپنے آپ کو اب بھی اقتدار میں ہی سمجھتے ہیں اور خاکسار کے جو روز بروز نئے نئے فلیٹس ظاہر ہو رہے ہیں‘ ہمارے لیے اقتدار کی یاد دلانے کے لیے وہی کافی ہیں ؛حالانکہ اگر ہمیں اقتدار میں رہنے دیا جاتا تو ان میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا تھا اور نیب کیلئے مزید آسانی ہو سکتی تھی‘ بلکہ ہم تو آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ہی اقتدار میں آتے ہیں‘ مثلاً :عوام کو غریب سے غریب تر کرنے‘ اپنے آپ کو امیر سے امیر تر کرنے اور بیرون ملک صاحبِ جائیداد لوگوں کیلئے‘ جبکہ بعض آسانیاں اپنے لیے بھی پیدا کرتے ہیں‘ مثلاً: پیسہ باہر بھیجنے کے لیے ہنڈی اور منی لانڈرنگ وغیرہ ‘جو بعد میں مشکلات میں بھی تبدیل ہو جایا کرتی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اپنے وکیل سے گفتگواور حمزہ شہباز سے ملاقات کر رہے تھے۔
وزراء کارکردگی بارے شائع رپورٹ غلط اور بے بنیاد ہے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وزراء کارکردگی بارے شائع رپورٹ غلط اور بے بنیاد ہے‘‘ کیونکہ ہم تو ابھی سیکھ رہے ہیں‘ کسی کارکردگی کا تو سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور ہماری اس سے زیادہ توہین اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ ہم پر کسی کارکردگی کا خواہ مخواہ الزام جڑ دیا جائے‘ کیونکہ اگر کوئی رپورٹ شائع ہی کرنی ہے‘ تو ہمارے سیکھنے کے بارے میں شائع کی جائے‘ جبکہ سیکھنے کا حال یہ ہے کہ کچھ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آ رہا؛ حالانکہ ہم کافی سمجھدار واقع ہوئے ہیں اور یہ بات بھی ہمیں سیکھنے کے دوران ہی معلوم ہوئی ہے‘ اس لیے اگر آئندہ ہماری کارکردگی کے بارے میں کوئی رپورٹ شائع کی گئی تو ہم ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کر دیں گے‘ کیونکہ وزیر ہونے کے بعد ہماری عزت میں ماشاء اللہ کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
برتھ کنٹرول کا مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنا ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''برتھ کنٹرول کا مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنا ہے‘‘ اگرچہ یہ بصورتِ دیگر بھی کم ہو جائے گی‘ کیونکہ آبادی کے ساتھ بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا‘ اس لیے برتھ کنٹرول کے تکلف کی ضرورت ہی نہیں اور ہمارے ہاں اکثر کام تکلف کے طور پر ہی کیے جاتے ہیں‘ مثلاً :حکومت بھی تکلف کے طور پر ہی چلائی جا رہی ہے؛ حالانکہ یہ اپنے آپ بھی پوری رفتار سے چل سکتی ہے ‘کیونکہ اللہ میاں نے اگر یہ ملک بنا دیا ہے تو اس کو چلانا بھی اُسی کی ذمہ داری ہے اور جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ جب سے بنا ہے‘ اپنے آپ ہی چل رہا ہے‘ کیونکہ حکومتیں تو برائے نام ہی ہوتی ہیں اور یہ بھی اللہ میاں کی خاص مہربانی ہے‘ ورنہ کسی کو اتنا بوجھ اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے اور ضرورت اگر ایجاد کی ماں ہے تو اس کا کوئی باپ بھی ہونا چاہیے اور ماں باپ کے ساتھ ہی جوڑا مکمل ہوتا ہے اور کثرتِ اولاد بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہے ‘جس کے لیے برتھ کنٹرول کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت چھ ماہ میں ہی ناکام ہو چکی ہے: خورشید شاہ
پیپلز پارٹی کے صف اول کے رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت چھ ماہ میں ہی ناکام ہو چکی ہے‘‘ جبکہ ہم نے ہمیشہ اپنی میعاد پوری کی‘ کیونکہ ہم اپنے کام میں مصروف رہتے تھے اور حکومت ہمیشہ کی طرح اپنے آپ ہی چلتی رہتی تھی اور وہ کام جس ہنر مندی سے کیا جاتا تھا۔ اس کی زرداری صاحب کے مقابلے میں اگر کوئی مثال ہو سکتی ہے‘ تو وہ شریف برادران ہیں‘ جو شرافت ہی شرافت میں بہت آگے نکل جاتے تھے؛ چنانچہ زرداری صاحب نے تاؤ میں آ کر ایسا کام کر دکھایا ‘جو میاں صاحبان کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گا اور جو نیب کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے؛ حالانکہ سر پکڑنے کی بجائے سرپر پاؤں رکھ کر بھاگا جاتا ہے اور جس کے لیے خاص ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے‘ کیونکہ اوّل تو سر پر پاؤں رکھنا ہی کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس پر طرئہ یہ ہے کہ اس حالت میں بھاگا بھی جائے ‘جو تبھی ممکن ہے؛ اگر آپ کے پیچھے کوئی ‘مثلاً :پولیس وغیرہ بھاگ رہی ہو اور لطف یہ ہے کہ پولیس بھی سر پر پاؤں رکھ کر ہی بھاگ رہی ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز روہڑی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
ایسا ہو یا ویسا ہو گا
اب جیسے کو تیسا ہو گا