حکومت کی دیانتداری عوام کیلئے عذاب بن چکی: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت کی دیانتداری عوام کے لیے عذاب بن چکی ہے‘‘ کیونکہ اس سے تو ہماری حکومت کی بد دیانتی ہی اچھی تھی کہ عوام سکھ چین کی زندگی بسر کر رہے تھے‘ کیونکہ ہم نے عوام کو بھی اپنے جیسا کر لیا تھا۔ اس لیے جب تک حکومت ہمارے جیسے لچھن اختیار نہیں کرے گی‘ عوام سکھ کا سانس نہیں لے سکیں گے ‘لیکن یہ حکومت بزدل ہی اتنی ہے کہ بددیانتی کے حوالے سے ہماری گردپا کو بھی نہیں پہنچ سکتی اور جہاں تک گرد کا تعلق ہے تو یہ یونہی اُڑتی رہے گی‘ یعنی اس کی گردان مسلسل ہوتی رہے گی‘ جس طرح حکومت کو دیانتداری کی گردان لگی ہوئی ہے‘ جو ایک ایسی بیماری ہے‘ جس کا کوئی علاج نہیں۔ لقمان حکیم نے بھی بڑی کوشش کی‘ لیکن مریض صحت یاب نہ ہو سکا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے قائد کو صحت کاملہ عطا فرمائے ‘جو ہسپتال میں ہر ممکن پرہیز بھی کر رہے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے بھی سُن رکھا ہے کہ پرہیز‘ علاج سے بہتر ہے ۔ آپ اگلے روز نارووال میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ دی ہے: ندیم افضل چن
وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ ''حکومت نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ دی ہے‘‘ لیکن ڈر رہے ہیں کہ سابقہ حکومت نے جس منصوبے کی بھی بنیاد رکھی‘ وہ ایک قدم بھی آگے نہیں جا سکا‘ جبکہ ہم تو ویسے ہی قدم قدم چل رہے ہیں کہ سکھلائی کا زمانہ ہے‘ کہیں تیز رفتاری کرتے ہوئے کسی ایکسیڈنٹ ہی کا شکار نہ ہو جائیں‘ اور جو روشن مستقبل کی ہم نے بنیاد رکھی ہے‘ تو ہم خود بھی حیران ہیں کہ ابھی تو ہم نے بنیاد رکھنا سیکھا ہی نہیں تھا تو یہ بنیاد کیسے رکھ دی گئی‘ ہمارا خیال ہے‘ ضرور اس میں کوئی سازش ہے‘ جو ہمارے خلاف پہلے دن ہی سے ہو رہی ہے‘ ورنہ اگر واقعی روشن مستقبل کی بنیاد رکھ دی گئی ہے تو تھوڑی بہت روشنی تو ہونی ہی چاہیے تھی ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں سرکاری خبر رساں ادارے سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکمرانوں کے پاس معاشی بحران سے نکلنے کا حل نہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کے پاس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے‘‘ کیونکہ جو حکومت میرے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنا سکی‘ وہ ملک کے لئے حکمت عملی کیا بنائے گی ؛حالانکہ میرے حوالے سے تو چھوٹی سی حکمت عملی بھی کافی ہوتی اور یہ جو کہا جا رہا ہے کہ میں نے کشمیر کمیٹی کے پیسے ہڑپ کیے ہیں تو مجھے یہ بتایا جائے کہ پیسے کوئی کھانے پینے کی چیز ہے‘ جسے ہڑپ کر لیا جائے‘ اس لیے ہڑپ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا‘ کیونکہ زبانی یعنی لُغت اس کے متبادل الفاظ سے بھری پڑی ہے‘ جیسے نواز شریف کے سنہری زمانے میں خاکسار کا پیٹ بھرا رہتا تھا ‘جبکہ اس موجودہ حکومت کو کبھی اس کا خیال نہیں آیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے ہاں خیالات کی بھی کمی واقع ہو گئی ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں ایک وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
سانحہ ساہیوال کے متاثرین کو انصاف لیں کر دیںگے: حمزہ شہباز
مسلم لیگ ن کے اہم رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''سانحہ ساہیوال کے متاثرین کو انصاف ملنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘ اگرچہ چین سے تو ہم پہلے بھی نہیں بیٹھے ہوئے کہ ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں ہی ختم نہیں ہو رہیں‘ اوپر سے لندن آیا ہوں تو کوئی استقبال کے لیے ہی موجود نہیں تھا‘ کیسا زمانہ آ گیا ہے؟ حتیٰ کہ یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ تایا جان سے ا ظہارِ یکجہتی کے لیے مخلص کارکنوں نے جو ہسپتال سے باہر کیمپ لگایا تھا اور یہ کہا تھا کہ نواز شریف کے صحت یاب ہونے تک وہ یہیں بیٹھے رہیں گے‘ وہ بھی بوریا بستر لپیٹ کر رفو چکر ہو گئے ہیں‘ شاید ان کے گردے میں پتھری کا سُن کر انہوں نے سمجھا ہو کہ پتھری نکلنا صحت یابی کی نشانی ہے‘ اس لیے انہوں نے کیمپ کو خیرباد کہہ دیا ہو‘ تاہم میرے استقبال کے لیے یہاں کسی کے نہ ہونے کے پیچھے کوئی سازش ہے‘ میں اس کا بھی پتا چلا لیتا ‘لیکن یہاں اثاثوں کا تیاپانچہ کرنے میں ہی بُری طرح مصروف ہو گیا ہوں۔ آپ اگلے روز فون میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
آج والے اپنے کالم بعنوان ''خدا کی بستی‘‘ میں برادرم آصف عفان نے فیضؔ کا شعر اس طرح نقل کیا ہے۔
بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
پہلے مصرعے کا پہلا لفظ ''وہ‘‘ تھا‘ جو مصرع میں موجود نہیں ہے؛ اگرچہ دونوں مصرعوں میں ''وہ بات‘‘ کی تکرار بجائے خود محل نظر ہے۔
اور اب آخر میں مختصر نظم پیش خدمت ہے:
نشانی
نشانی ہے بیٹھک
مری پسلیوں سے پُرانی ہے بیٹھک
یہاں باپ کی چارپائی پڑی تھی
یہاں شاعری ہاتھ باندھے کھڑی تھی
(عامر سہیل‘ بہاولنگر)
آج کا مطلع
وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ہیں‘ میں آرام کرتا ہوں
وہ اپنا کام کرتے ہیں‘ میں اپنا کام کرتا ہوں