پی پی کو اقتدار سے دُور رکھنے والی طاقتیں اب پچھتا رہی ہیں: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دُور رکھنے والی طاقتیں اب پچھتا رہی ہیں‘‘ جبکہ پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لا کر بھی یہ طاقتیں بہت پچھتاتی تھیں‘ لیکن بقول شخصے ''اب پچھتائے کیا ہوت ‘جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ اگرچہ یہ محاورہ ہی سراسر غلط ہے کہ چڑیاں سارا کھیت کیسے چگ سکتی ہیں‘ کیونکہ اگر جعلی اکائونٹس کی کارروائی کے بعد ملک میں کافی دولت بچی ہوئی نظر آتی ہے‘ تو کھیت کو چڑیاں زیادہ سے زیادہ کتنا چگ سکتی ہیں اور جو دولت ملک میں اس کے بعد بھی بچ رہی ہے‘ اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے‘ کیونکہ اگر یہ کیس پکڑا نہ جاتا تو چڑیوں نے سارا کھیت ہی چگ لینا تھا ‘لیکن یہ قوم بنیادی طور پر بیحد نا شکری واقع ہوئی ہے؛ حالانکہ حکم یہ ہے کہ ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کرو۔ چاہے ‘حالات کیسے بھی ہوں‘ کیونکہ وہ اس سے بھی بدتر ہو سکتے تھے۔ جیسا کہ گرفتاریوں کے بعد ہونے والے ہیں؛ حالانکہ والد صاحب ان سے بالکل نہیں ڈرتے‘ بلکہ ان گرفتاریوں کو والد صاحب سے ڈرنا چاہئے۔ آپ اگلے روز واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
احسن اقبال کے خلاف جھوٹے الزامات لگانا سی
پیک منصوبے کے خلاف سازش ہے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''احسن اقبال کے خلاف جھوٹے الزامات لگانا سی پیک منصوبے کے خلاف سازش ہے‘‘ حالانکہ اگر تھوڑا سا تردد اور کیا جاتا تو سچّے الزامات بھی دستیاب ہو سکتے تھے‘ جنہیں پھر بھی ہم جھوٹا ہی کہتے‘ کیونکہ یہ جھوٹے سچے الزامات سراسر قومی مفاد کے خلاف ہیں اور ان سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا‘ ماسوائے ملک کی بدنامی کے‘ جیسا کہ ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے کے خلاف الزام لگا کر اور اسے ثابت کر کے اندر کروانے سے دنیا بھر میں وطن عزیز کی جس قدر رسوائی ہوئی ہے‘ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور‘ اب احسن اقبال صاحب کو اندر کروا کر ملک و قوم کی مزید بدنامی کی بنیاد رکھی جا رہی ہے‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ الزامات لگانے والوں کو ملکی مفاد ہرگز عزیز نہیں‘ جبکہ کئی دیگر شرفاء کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز کیا جا رہا ہے‘ مثلاً: شاہد خاقان عباسی کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے‘ وہ بھی سابق وزیراعظم ہیں؛ حالانکہ ایک ہی وزیراعظم پر قناعت کی جا سکتی تھی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
معاشی بہتری کے لیے ماحول سازگار بنایا جائے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''معاشی بہتری کے لیے ماحول سازگار بنایا جائے‘‘ کیونکہ اس کے بغیر معاشی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا؛ حالانکہ خواب دیکھنے میں کوئی کسر نہیں ہے‘ کیونکہ ہم یہی کام زیادہ شد و مد سے کر رہے ہیں‘ جبکہ ہر کام سے پہلے اس کا خواب دیکھنا ضروری ہوتا ہے‘ اس لیے ہم نے ضروری کام کو ترجیح دی ہے‘ جبکہ یہ ترجیح دینا بجائے خود ایک بڑا کام ہے‘ جو ہم سے سرزد ہو گیا ہے‘ کیونکہ آدمی بندہ بشر اور خطا کا پُتلا ہے اور اس سے غلطی وغیرہ ہو ہی جاتی ہے؛حالانکہ پُتلے اور پتلی میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
شہباز شریف کو اپوزیشن جماعتوں کا سربراہی
اجلاس بُلانے کا مشورہ دیا ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کو اپوزیشن سربراہی اجلاس بلانے کا مشورہ دیا ہے‘‘ اور چونکہ میں بھی ایک جماعت کا سربراہ واقع ہوا ہوں‘ اس لیے ان معززین میں‘ میں بھی شامل ہوں گا اور اپنے مسائل و مشکلات بیان کرنے کا موقعہ ملے گا کہ اس خاکسار پر کیسا وقت آیا ہوا ہے اور محض اس کی فضیلت پر گزارہ نہیں ہو سکتا‘ اس لیے ملک کو بحران سے نکالنے کے ساتھ ساتھ اس ناچیز کے بحران کا بھی کوئی مداوا کرنے کی صورت نکالی جائے جبکہ اس سے پہلے ایسا معاشی بحران کبھی نہیں دیکھا تھا‘ جبکہ مجھے اس بحران سے نکالنا بجائے خود ملک کو بحران سے نکالنے ہی کے مترادف ہے اور اگر ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے دیگر ملکوں سے مالی امداد لی جا رہی ہے تو خاکسار کے لیے مقامی طور پر ہی اس کا اہتمام ہو سکتا ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب حسب ِمعمول اس ہفتے کی تازہ غزل:
خالص نہیں وفا تو جفا ہے ملی جُلی
یہ باغ وہ ہے جس کی ہوا ہے ملی جُلی
کچھ لوگ ہیں بُرے تو بہت ہی بُرے ہیں کچھ
کچھ اس طرح سے خلقِ خدا ہے ملی جُلی
ہو جائوں گا میں ٹھیک‘ غلط بھی رہوں گا میں
اب کیا کروں کہ میری دوا ہے ملی جُلی
انصاف کے ہیں اپنے طریقے ہمارے ہاں
ہے جرم ایک سا تو سزا ہے ملی جُلی
میں ہی نہیں‘ ذرا یہاں تو حساب دے
یہ کیوں نہ ہو کہ اپنی خطا ہے ملی جُلی
ظاہر میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ اصل میں
کیا چیز ہے الگ یہاں‘ کیا ہے ملی جُلی
دیتی نہیں کسی کو سنائی اسی لیے
خالص نہیں‘ ہماری صدا ہے ملی جُلی
مصرع رواں بھی ہوتا ہے رکتا بھی ہے کبھی
کچھ دن سے اپنی طبعِ رسا ہے ملی جُلی
پانی بھی اور آگ بھی برسائے گی‘ ظفرؔ
یہ ہے جو اپنے سر پہ‘ گھٹا ہے ملی جُلی
آج کا مقطع
پاؤں پھیلاتا ہوں چادر دیکھ کر میں بھی‘ ظفرؔ
کچھ مجھے اس نے بھی ہے اوقات میں رکّھا ہوا