تیرے سجدوں سے، ترے نام سے پہلے والی
وہی حالت مری احرام سے پہلے والی
حُسن کے عطر سے مدہوش جوانی تیری
رات رنگوں سے دُھلے بام سے پہلے والی
تیرے ہوتے ہوئے ہم اور ہوئے، اور ہوئے
تُو وہی تُو وہی دُشنام سے پہلے والی
تو شرابوں سے، گلابوں سے زیادہ نازک
تو بنفشہ سے، کسی پام سے پہلے والی
میں نے یاقوت کے صفحوں پہ ترا نام لکھا
ساتھ گمراہی تھی اصنام سے پہلے والی
مجھ میں آزاد کوئی، مجھ میں گرفتار کوئی
اور خوشبو ترے بسرام سے پہلے والی
تخلیے میں بھی وہ کچھ کہتی نہیں ہے، یعنی
گفتگو بھی نہیں مادام سے پہلے والی
میری خرجین بھی وہ جس میں فقط تیرا پتا
میری گُدڑی بھی وہی جام سے پہلے والی
تو مرے ساتھ مہک، آ کے مرے ساتھ بہک
مجھ میں وحشت ہے وہی شام سے پہلے والی
٭...٭...٭...٭
آسمانوں کی ہو مقروض کہ ویرانی کی
آگ مٹی کی بنی ہو کہ ہوا پانی کی
زندگی اپنی حراست کے خدوخال بچا
آخری رات ہے زندان میں زندانی کی
کوریڈاروں میں محبت کے ترے ساتھ رہے
تیری پلکوں کے دریچے کی نگہبانی کی
جاگی سوئی ہوئی دُنیاؤں میں جادو کی مہک
جیسے آسیب میں پازیب مہارانی کی
ہوش میں تھے کہ نہ تھے، کوئی بتاتا بھی نہیں
ہم نے گلیوں میں کسی بُت کی ثنا خوانی کی
رُک گئی تیز ہوا، چاپ ڈری، آپ ڈرے
رات خیمے میں کشش تیز تھی عریانی کی
میں نے مڑتے ہوئے دیکھا تو شجر خالی تھے
ہنس کے پتوں نے کہا عمر ہے من مانی کی
جیسے تم دیر سے اور دُور سے ملنے آؤ
جیسے ڈمپل نے فضا باندھی ہو مہمانی کی
درد ہے، اہلِ محبت کی ہے بیٹھک عامر
عشق میں کوئی بھی رت رُت نہیں نقصانی کی
٭...٭...٭...٭
افسانہ افسانہ ہوں
میں دُکھ کا بیعانہ ہوں
مجھ میں مجھ میں تُند شراب
مٹی کا پیمانہ ہوں
نیندوں نیند کرو مصلوب
اک اک خواب کا طعنہ ہوں
چھتری کھول محبت کی
تیری سمت روانہ ہوں
تیری آنکھ سمیٹے بھی
ملبہ ہوں، ویرانہ ہوں
عشق اور عشق کی تیز پھوار
رزق اور آب ودا نہ ہوں
درویشوں کو علم نہیں
زہر ملا ظہرانہ ہوں
وہ بھی اور ہوئی، میں بھی
کوئی نیا بہانہ ہوں
اک دو گھونٹ بچا رکھو
ہونٹوں کا عوضانہ ہوں
جلا جلا افغانستان
بجھا بجھا فرغانہ ہوں
٭...٭...٭...٭
آج کا مقطع:
ظفر کرتے تھے جو رو رو کے پہلے
وہی اب ہنستے ہنستے کر رہے ہیں