شہباز شریف کی رہائی جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کی رہائی جمہوریت کے لئے نیک شگون ہے‘‘ بلکہ خاکسار سمیت خدمت کرنے والے جملہ سیاستدانوں کی رہائی بھی نیک شگون ہے‘ کیونکہ جمہوریت پر وقت ایسا آ گیا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ نیک شگونوں کی ضرورت ہے‘ کیونکہ اس درجے کی خدمت جمہوریت ہی میں ممکن ہے‘ جیسی ہم لوگ انجام دے رہے ہیں‘ کیونکہ ہمیں پوچھنے والے بھی ہم خود ہی ہیں؛ حالانکہ یہ سارا کچھ اللہ میاں کی دین ہے اور یہیں پڑا رہ جائے گا؛ حتیٰ کہ سکندر اعظم بھی اپنے ساتھ کچھ نہیں لے گیا تھا؛ اگر وہ چاہتا تو بہت کچھ ساتھ لے جا سکتا تھا‘ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں شہباز شریف کو رہائی پر مبارکباد کا پیغام دے رہے تھے۔
ظلم کی رات جلد ختم ہو گی‘ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے: مریم نواز
سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ظلم کی رات جلد ختم ہو جائے گی اور حالات جلد بہتر ہو جائیں گے‘‘ کیونکہ والد صاحب نے کہہ دیا ہے کہ اگلا جمعہ جاتی امرا میں ادا کریں گے‘‘ اور ایسے پہنچے ہوئے بزرگوں کا کہا کبھی خالی نہیں جاتا‘ کیونکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جیل حکام انہیں جمعہ پڑھوانے کیلئے جاتی امرا لے آئیں اور ان کا کہا‘ اسی طرح پورا ہو جائے‘ جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم عدالت سے سرخرو ہوں گے۔ سو‘ وہ میں اور صفدر دس ‘سات اور پانچ سال کیلئے سرخرو ہوئے اور جاری مقدمات میں بھی اسی طرح سرخرو ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ کیونکہ آدمی کو ارادے کا مضبوط ہونا چاہیے اور جو کچھ انہوں نے کہا ہے‘ وہ مضبوط ارادے‘ یعنی عزمِ صمیم کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا‘ تاہم رات ظلم کی ہو یا کرم کی‘ ا س کی میعاد بارہ گھنٹے ہی ہوتی ہے‘ اس لیے قوم کو زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ یہ بغل ہی بالآخربغلول کر کے رکھ دیتی ہے‘ اس لیے بہتر ہے کہ بغلوں کی بجائے باجا وغیرہ بجا لیا جائے۔ آپ اگلے روز جناح ہسپتال آمد کے موقعہ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
پولیو کیس سامنے آنے کا ہم نے نوٹس لے لیا ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پولیو کیس سامنے آنے کا نوٹس ہم نے لے لیا ہے‘‘ کیونکہ ہم زیادہ سے زیادہ نوٹس ہی لے سکتے ہیں‘ کیونکہ شفا اور زندگی موت تو اللہ کے اختیار میں ہے‘ جبکہ ہمارے اختیار میں جو کچھ تھا‘ ہم نے کر کے دکھا دیا ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی دیر نہیں لگائی‘ کیونکہ دیر ہم صرف کچھ کرنے میں لگاتے ہیں کہ پھل پکا ہی میٹھا ہوتا ہے؛ چنانچہ ہم کریلے بھی آہستہ آہستہ پکائیں تو وہ کھیر بن جاتا ہے‘ اگرچہ یہ کھیر ذرا ٹیڑھی ہوتی ہے اور اسے معمولی آدمی کھا بھی نہیں سکتا‘ کیونکہ کھانے سے پہلے اسے سیدھا کرنا پڑتا ہے ‘جو کوئی آسان کام نہیں ہے اور الحمد للہ ہمارے آسان اور مشکل سارے کام اپنے آپ ہی ہوتے جا رہے ہیں‘ کیونکہ ہم خدانخواستہ کام کرنے کیلئے نہیں آئے‘ کیونکہ کام کرنا تو نوکروں کا شیوہ ہے؛ چنانچہ ہم نے اپنے اردگرد کافی نوکر چاکر بھی رکھے ہوئے ہیں‘ کیونکہ ان کے نزدیک کام میں بڑی برکت ہوتی ہے۔آپ اگلے روز سعودی بھائیوں کو پاکستان آنے پر مبارکباد پیش کر رہے تھے۔
جس چراغ کو اللہ جلائے ‘اُسے کون بجھا سکتا ہے: تہمینہ درانی
سابق وزیراعظم پنجاب کی اہلیہ تہمینہ دُرانی نے کہا ہے کہ ''جس چراغ کو اللہ جلائے‘ اُسے کون بجا سکتا ہے‘‘ البتہ اسے ہوا وغیرہ سے بچا کر رکھنا چاہئے‘ مثلاً: کسی دیوار کی اوٹ میں‘ خصوصاً جس پر نوشتۂ دیوار نہ ہو‘ جبکہ دیواروں پر رکھنا ویسے بھی انتہائی غیر مناسب ہے‘ کیونکہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ‘جنہیں مروڑا بھی نہیں جا سکتا‘ اسی لیے کان مروڑنے کا سارا کام ایک ادارے نے سنبھال رکھا ہے اور سارے کا سارا سنبھالا ہوا ریکارڈ بھی برآمد کرلیا ہے‘ جو گڑے مردے اکھاڑنے کے مترادف ہے اور جس ملک کی عزت و تکریم نہ ہو‘ اس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس کا کیا بنے گا؟ آپ اگلے روز میاں شہباز شریف کی رہائی پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہی تھیں۔
سجاد بلوچ اور عنبرین صلاح الدین میاں بیوی بھی ہیں اور شاعر بھی۔ کل تشریف لائے تھے۔ ان کا کچھ کلام:
رستہ روکتی خاموشی نے کون سی بات سنانی ہے
رات کی آنکھیں جان چکی ہیں کس کے پاس کہانی ہے
آپ کہیں تو تین زمانے ایک ہی لہر میں بہہ نکلیں
آپ کہیں تو سب باتوں میں ایسی ہی آسانی ہے
اپنے اپنے طرزِ سخن میں اپنے اپنے دل کی بات
آپ کہیں تو دانائی ہے‘ ہم جو کہیں نادانی ہے
رات کی چادر تہہ ہونے تک‘ دُھوپ کا جادو کھلے تک
دروازے کے بند کواڑوں نے کیا بات چھپانی ہے
جتنے پل تک رقص کریں گی کرنیں برف کی قاشوں پر
کہساروں کے دامن میں بھی تب تک ایک کہانی ہے
(عنبرین صلاح الدین)
ہمارے پاس بھی بچنے کا داؤ آخری ہے
تمہارا وار بھی اب کے ہواؤ آخری ہے
قدم قدم پہ بشارت یہیں کی دی گئی تھی
سو‘ ہمرہاں یہ ہمارا پڑاؤ آخری ہے
تمہیں جو رات کا دریا عبور کرنا ہو
کنارِ شام پہ خوابوں کی ناؤ آخری ہے
پھر اُس کے بعد ہے تاریکیوں کا سرد سکوت
مرے خیال کا روشن الاؤ آخری ہے
بس ایک دل ہی تو مانگا ہے دل کے بدلے میں
سو‘ بھاؤ تاؤ نہ کیجے یہ بھاؤ آخری ہے (سجاد بلوچ)
آج کا مطلع
برا ہو کہ اچھا نہیں چاہیے
یہ پتلی تماشا نہیں چاہیے