نواز شریف کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا: راجہ ظفر الحق
نواز لیگ کے مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا‘‘ کیونکہ جس وقت یہ بیان دیا گیا اس وقت ان کے دوست مودی صاحب برسر اقتدار تھے اور اب جبکہ مودی صاحب کو انتخابات میں شکست ہونے والی ہے اور نواز شریف بھی وزیراعظم نہیں رہے بلکہ جیل میں ہیں تو اب یہ بیان کیونکر پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بیان واپس لینے کا بھی سوچا تھا لیکن وہ خدمت میں دن رات اس قدر مصروف تھے کہ کسی اور کام کی گنجائش ہی نہیں تھی‘ نیز یہ کہ وہ بھی ایک سیاسی بیان تھا اور سیاسی بیانات کے بارے وہ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی جیسا کہ اب اُن کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی‘ اس لیے ان سے کوئی بھی بیان منسوب کرنا درست نہیں ہے‘ ماسوائے جی ٹی روڈ والے بیانات کے‘ اور آج کل وہ خاموش اس لیے ہیں کہ جی ٹی روڈ پر جانے کا انہیں موقع ہی نہیں ملتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک قومی روزنامہ سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے
لوگ قوم کی حقیقی قیادت نہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے لوگ قوم کی حقیقی قیادت نہیں‘‘ جبکہ قوم کی حقیقی قیادت تو ہم ہیں جنہیں عوام ہر بار دھوکہ دے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کی حالت نہیں بدلی اور تا قیامت نہیں بدلے گی۔ جنہیں یہ کہنا بالکل مناسب ہو گا کہ ہور چوپو! اگرچہ جماعت بدلنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حالت پہلے سے بھی خراب ہو جائے اور اسی ڈر سے ہم خود بھی اقتدار میں نہیں آنا چاہتے کہ کہیں ان کی حالت مزید خراب نہ ہو جائے‘ اس لیے قوم کو ہمارا مشکور ہونا چاہئے‘ اگرچہ محترم جنرل ضیا الحق کے دور میں ہمیں دو چار وزارتیں ملی تھیں اور قوم کا زوال بھی اسی زمانے میں شروع ہو گیا تھا۔ تاہم‘ ہم پر کبھی زوال نہیں آیا۔ اس لیے کہ زوال ان پر آتا ہے جو نقطۂ کمال تک پہنچ چکے ہوں۔ آپ اگلے روز منصورہ میں علما کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے‘‘ اور انہیں خواہ مخواہ بیمار ظاہر کیا جا رہا ہے حالانکہ وہ ہٹّے کٹّے ہیں‘ بیشک مخالفین ان کے ساتھ کشتی لڑ کر دیکھ لیں جبکہ ان کے صحتمند ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ جیل اور ہسپتال میں بھی کباب‘ سموسے اور سری پائے ان کے معمول کی خوراک میں شامل ہیں جن کی وہ اپنے ملاقاتیوں سے فرمائش بھی کرتے رہتے ہیں اور جہاں تک بیماری کا تعلق ہے تو وہ بھی علاج کی غرض سے باہر جانے کی ایک حکمت عملی ہے‘ اگرچہ حکومت اس پر رضا مند نہیں ہوگی جو کہ سراسر زیادتی ہے اور سارے کے سارے ڈاکٹر بھی انہی کے لگائے ہوئے ہیں اس لیے اپنی من پسند رپورٹ بھی حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ خلافِ طبع ان کی خاموشی کا بھی اور کوئی مطلب نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
فیصل آباد سکول آف تھاٹ
فیصل آباد میں عمدہ شعرا کی جو کہکشاں پھیلی ہوئی ہے‘ اسے بجا طور پر ایک مکتب فکر کی حیثیت حاصل ہے۔اس شہر کے طرحدار شاعر علی زریون کے کچھ اشعار:
تمہارے نام پر تخریب کاری ہو گئی ہے
مبارک ہو گرفتاری ہماری ہو گئی ہے
کوئی سچ مچ محبت کر کے پیاسا پھر رہا ہے
کسی کی داستاں میں نہر جاری ہو گئی ہے
یہ پنجرے اور پرندے کب تلک بیچو گے بھائی
نیا لکھو‘ بہت چوری چکاری ہو گئی ہے
ظفر اقبال کا دلیا اگر پھیکا ہے تو کیا
غزل کی دال تو اُن کی کراری ہو گئی ہے
تو کیا اس بات پر بھی شکریہ بنتا نہیں کیا
کہ عاشق ہم تھے‘ مشہوری تمہاری ہو گئی ہے
اور اب آخر میں حسبِ معمول اس ہفتے کی تازہ غزل:
اس دفعہ ہمسفر جو ہمارا نہیں ہوا
بس ہو کر ایک بار‘ دوبارہ نہیں ہوا
کچھ توُ بھی اپنے ترکِ تعلق پہ غور کر
نقصان اس میں صرف ہمارا نہیں ہوا
بے وجہ نوکری سے نکالا گیا ہمیں
تھا کام کون سا جو تمہارا نہیں ہوا
رہتے ہو منتظر جو سلام و پیام کے
لگتا ہے آپ کا بھی گزارہ نہیں ہوا
مرضی سے اپنی آپ تھے خود ہی رکے رہے
یہ بات بھی نہیں کہ اشارہ نہیں ہوا
دنیا سے چھپ چھپا کے جو کرنے لگے تھے ہم
تھوڑا ہی وہ بھی ہو گیا‘ سارا نہیں ہوا
کوشش میں اپنی کوئی کمی رہ گئی کہیں
دریا تو ہو گیا ہے‘ کنارہ نہیں ہوا
اک بات ہے کہ ہم نے بتائی ہوئی نہیں
اک بوجھ ہے کہ سر سے اتارا نہیں ہوا
جس کو صدائیں دیں کہیں پلٹا نہیں‘ ظفرؔ
اور آ گیا ہے وہ جو پکارا نہیں ہوا
آج کا مقطع:
ظفر یہ تاک جھانک اب جو سمجھو
ذرا ایمان تازہ کر رہے ہیں