"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن اور مکالمہ40

سندھ فوڈ اتھارٹی کہاں کہاں جائے‘ لوگوں 
کو خود بھی احتیاط کی ضرورت ہے: شہلا رضا
ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی اور پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کہا ہے کہ ''سندھ فوڈ اتھارٹی کہاں کہاں جائے‘ لوگوں کو خود بھی احتیاط کی ضرورت ہے‘‘ انہیں چاہئے کہ جس ہوٹل میں بھی کھانا کھانے جائیں‘ ساتھ ایک ڈاکٹر کو لے کر جائیں‘ جو پہلے کھانا چیک کرے‘ بلکہ ہر ہوٹل کے باہر ایک ڈاکٹر موجود ہو ‘تا کہ جانوں کا ضیاع نہ ہو سکے اور جہاں تک ان بچوں کی موت کا تعلق ہے‘ تو ہمیں اس پر بہت افسوس ہے‘ تاہم ان کی زندگی ہی اتنی تھی؛ اگر زہریلا کھانا کھا کر نہ مرتے تو کسی اور وجہ سے مر جاتے‘ مثلاً: ایکسیڈنٹ سے مر جاتے‘ جس صورت میں شاید ان کی شکلیں بھی پہچانی نہ جا سکتیں‘ کم از کم زہر خورانی سے مرنے سے ان کے جسم تو پوری طرح سلامت تھے‘ جبکہ فوڈ انسپکٹر ہر ہوٹل کا کھانا چیک نہیں کر سکتے ماسوائے‘ ان ہوٹلوں کے جن میں وہ خود کھانا کھانے جاتے ہیں اور چونکہ وہ خدمت خلق میں مصروف ہوتے ہیں!۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
سوشل میڈیا پر ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''سوشل میڈیا پر ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں‘ کیونکہ سیاست میں تو کوئی ہماری بات ہی نہیں سنتا۔ سو‘ اب سوشل میڈیا ہی رہ گیا ہے؛ اگرچہ وہ بہت خشک اور غیر پیداواری علاقہ ہے ‘بلکہ انہیں چائے بھی اپنے پلّے سے پلانی پڑتی ہے؛ حالانکہ انہیں چاہئے کہ کم از کم چائے تو گھر سے پی کر آیا کریں اور کسی شریف آدمی پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں‘ جس کی مالی حالت پہلے ہی نا گفتہ بہ ہے‘ بلکہ زرداری اور نواز شریف کو ملانے کے لیے جتنے چکر میں نے لگائے ہیں ‘میرا دل ہی جانتا ہے‘ لیکن کسی میں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ رکشے کا کرایہ ہی دے دیں؛ حالانکہ دونوں کی نیک کمائی کا کوئی حساب ہی نہیں ہے اور میرے جیسے بے روزگار اور مسکین آدمی کا انہیں ویسے بھی خیال رکھنا چاہئے۔ آپ اگلے روز کراچی میں سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
نا انصافیاں ہی دہشت گردی کو تقویت دیتی ہیں: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نا انصافیاں ہی دہشت گردی کو تقویت دیتی ہیں‘‘ اس لیے حکومت سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا حکومت ہمارے ساتھ نا انصافیاں کر کے ہمیں دہشت گرد بنانا چاہتی ہے؟ جبکہ مالی دہشت گردی تو ایک الگ معاملہ ہے‘ جس سے کسی کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا‘ بلکہ روپیہ گردش میں رہتا ہے اور ملک ترقی کرتا ہے؛ اگرچہ انکل نواز شریف کا ملکی ترقی کا نظریہ ذرا مختلف تھا؛ حالانکہ دونوں میں کوئی زیادہ فرق ہے‘ جبکہ والد صاحب اور انکل مذکورمیں ویسے بھی کوئی فرق نہیں‘ بس ذرا طریقِ کار مختلف ہے‘ جبکہ نتیجہ ایک ہی برآمد ہوتا ہے اور اب تو اس کے بعد دونوں کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہوتا نظر آ رہا ہے اور یہ سارا کچھ انتقامی کارروائی ہی کے ذریعے کیا جاتا ہے‘ کیونکہ دونوں یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سراسر انتقامی کارروائی ہے۔ آپ اگلے روز آکسفورڈ یونیورسٹی میں خطاب کر رہے تھے۔
عمران کنٹینر کے وزیراعظم ہیں‘ پارلیمنٹ کے نہیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران کنٹینر کے وزیراعظم ہیں‘ پارلیمنٹ کے نہیں‘‘ اور اب‘ جبکہ ہم نے دیکھا ہے کہ آدمی کنٹینر سے اترتے ہی وزیراعظم ہو جاتا ہے تو ہمارا اپنا ارادہ ہے کہ اپنے قائدین کے لیے ایک بڑا سا کنٹینر خرید لیں اور پھر اس کا اعجاز دیکھیں ‘کیونکہ بصورت دیگر تو کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا‘ کیونکہ بقول عمران خان کے کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر سہولیات حکومت فراہم کرے گی اور امید ہے کہ ہمارے قائد کیلئے پرہیزی کھانا بھی مل جایا کرے گا‘ جو کہ اب ہسپتال میں نہ ان کا صحیح علاج ہو رہا ہے‘ نہ انہیں من پسند کھانا دیا جاتا ہے ‘جبکہ شفاء انہیں صرف لندن کے اسی کلینک سے مل سکتی ہے ‘جہاں انہوں نے دل کا آپریشن کروایا تھا؛ اگرچہ وہاں تب تک کوئی اپنڈے سائٹس کا آپریشن بھی نہیں کیا گیا۔ اس لیے‘ اگر نواز شریف کو کچھ ہو گیا‘ تو ذمہ دار عمران خان ہوں گے؛ آپ اگلے روز عمران خان کی تقریر پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہی تھیں۔
مکالمہ 40 
کراچی سے مبین مرزا کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے ''مکالمہ‘‘ کا تازہ شمارہ شائع ہو گیا ہے۔ قیمت فی شمارہ 250 روپے ہے۔ حرفِ آغاز ڈاکٹر اسلم انصاری کے قلم سے ہے‘ جس کے بعد ''اوراقِ بوسیدہ‘‘ کے عنوان سے حسن منظر کی تحریر ہے۔ سحر انصاری نے ''گئے زمانوں کی داستانیں‘‘ بیان کی ہیں‘ جبکہ رشید امجد نے نجم الحسن رضوی کی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ وانگ آن ای کے عنوان سے احفاظ الرحمن کی تحریر ہے‘ جبکہ اس کے بعد امجد اسلام امجد کی دو غزلیں ہیں۔ سلمیٰ اعوان نے رابندر ناتھ ٹیگور پر قلم اٹھایا ہے‘ جبکہ قاضی افضال حسین نے ''ادب کی شعریات و سیاست ‘‘پر اظہار خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے ''جدید عہد کے تناظرمیں اقبالؔ‘‘ پر مضمون لکھا ہے۔ اس کے بعد صبا اکرام کی دو نظمیں ہیں‘ پھر ڈاکٹر امجدطفیل نے ''ادبی متن کی تفہیم و تعبیر ‘‘پر مضمون آرائی کی ہے‘ تو طاہر مسعود نے'' رازداں اور وقت آخر ‘‘پر قلم اٹھایا ہے‘ جبکہ حمرا خلیق نے اپنی والدہ پر لکھا ہے۔ محمد عارف جمیل نے ''حاضر سائیں5‘‘ قیصر عالم کی اردو ادب اور عالمی منظر نامہ پر تحریر ہے۔ اس کے بعد خورشید ربانی کی9 غزلیں ہیں‘ پھر‘ محمد ہاشم خان کا ''اور غالبؔ بچ گیا‘‘ سیمیں کرن کا '' نیازمندجبیں کاسجدہ بے نیاز‘‘ اور خاکسار کی خود نوشت کی 19 ویں قسط شامل ہے۔
آج کا مقطع
اس سے کیا ملنے آؤگے کہ ظفرؔ
نہیں ہوتا جہاں بھی ہوتا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں