"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ان کی‘ متن ہمارے

ڈیڑھ سال کے حالات بتا دوں تو تہلکہ مچ جائے:چودھری نثار
سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خان نے کہا ہے کہ ڈیڑھ سال کے حالات و واقعات بتا دوں تو تہلکہ مچ جائے‘ لیکن تہلکہ اس لیے نہیں مچایا کہ ان سارے واقعات میں میرا اپنا بھی کردار موجود تھا اور تہلکہ مچاتے مچاتے میں بھی پھنس جاتا تو مجھے کس نے نکالنا تھا؛ اگرچہ پراسیکیوٹروں کی مہربانی اور نالائقی سے میں بھی بچ نکلتا ‘لیکن نیب کی گرفتاری کے دوران حالات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوتے؛ اگرچہ الیکشن ہارنے کے بعد بھی صورتحال خاصی ناخوشگوار ہو گئی ہے‘ تاہم یہ عجیب ملک ہے ‘جہاں صورتحال کے تبدیل ہونے میں کوئی وقت ہی نہیں لگتا ‘جبکہ میری بیان سے کچھ کی جگ ہنسائی ہوتی تو کچھ کی عزت میں اضافہ‘ لیکن چونکہ کچھ معززین کی جگ ہنسائی پہلے ہی کافی ہو چکی ہے اور کچھ کی عزت میں مزید اضافے کی گنجائش ہی نہیں ہے‘ اس لیے خاموش ہوں ‘ورنہ ڈیل کے سارے معاملات کھول کر رکھ دیتا اور ساتھ ساتھ میرے بھی کافی معاملات کھل جاتے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔
حکومت مخالف دھرنا ایم ایم اے ‘پلیٹ فارم سے دیا جائے:فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت کے خلاف دھرنا ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے دیا جائے ‘جس کیلئے کسی تگڑے سے پلیٹ فارم کی تیاری شروع کردی گئی ہے‘ جس پر خرچہ تو کافی آئے گا‘ لیکن حکومت اگر دھرنے کے شرکا کو دیگر سہولیات کے علاوہ دو وقت کھانا بھی فراہم کرے گی‘ اس لیے ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پلیٹ فارم کی تعمیر میں بھی مالی امداد فراہم کرے‘ نیز یہ بھی وضاحت کرے کہ دو وقت کے کھانے کے علاوہ صبح کا ناشتہ کون دے گا‘ کیونکہ ناشتے کے بغیر تو دھرنے کا آغاز ہی خاصا کمزور رہے گا جبکہ وقفے وقفے سے ان معززین کے لئے چائے کا اہتمام بھی ضروری ہے ‘بلکہ اس سے بھی زیادہ بسکٹس کی فراہمی ضروری ہے اور اگر ساتھ ہی تھوڑا ڈرائی فروٹ بھی ہو جائے تو دھرنے کی کامیابی یقینی ہو جائے گی۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
امن کے پیچھے وردی‘ قوم افواج کیساتھ کھڑی ہے:فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن نے کہا ہے کہ امن کے پیچھے وردی‘ قوم افواج کے ساتھ کھڑی ہے‘‘ جبکہ اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے ‘جس کی اطلاع وزیراعظم خود بھی دے چکے ہیں‘ جبکہ عوام تو ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کب کے کھڑے ہیں اور انہیں کئی بار کہا بھی گیا ہے کہ کھڑے کھڑے تھک گئے ہو گے‘ بیٹھ کر تھوڑا آرام بھی کر لو‘ جبکہ ہم بھی آرام کی غرض سے بیٹھ جاتے ہیں اور اس طرح ہم اور عوام شانہ بشانہ بیٹھے نظر آئیں گے ‘بلکہ زیادہ تھک جانے کی صورت میں ہمارے ساتھ شانہ بشانہ لیٹ بھی سکتے ہیں‘ کیونکہ اصل مقصد شانہ بشانہ ہونا ہے‘ کھڑے ہونا‘ بیٹھنا اور لیٹ جانا نہیں‘ جبکہ ہمیں تو لیٹے رہنے کی عادت پہلے ہی سے پڑی ہوئی ہے کہ سکھلائی کا سارا کام اسی صورت کیا جاتا ہے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
جمہوریت کا تحفظ کرینگے‘ حکومت کو گھر بھیجیں گے:خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جمہوریت کا تحفظ کریں گے اور پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیجیں گے ‘کیونکہ جب سے ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع ہوئی ہیں‘ جمہوریت شدید خطرے میں مبتلا ہو گئی ہے اور پچھلے کم و بیش ڈیڑھ سال سے یہ خطرہ جمہوریت کے سر پر منڈلا رہا ہے اور اس کا بچانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم لوگوں کی ساری خوشحالی اسی جمہوریت کے دم قدم سے ہے ‘کیونکہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں تعاون کر رہی تھیں اور کسی کو کسی انتقامی کارروائی کا موقع ہی نہیں ملتا تھا ‘جبکہ میاں نواز شریف اور زرداری صاحب ایک دوسرے کو جملہ آفات ارض و سماوی سے بچائے رکھتے تھے اور اس تعاون کو لوگ بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے‘ جبکہ اب یہ شرفا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل ہی نہیں رہے ‘کیونکہ حکومت دونوں میں کسی کے پاس بھی نہیں ہے اور اب ایل این جی والا پہاڑ بھی ہمارے سروں پر ٹوٹنے والا ہے؛ حالانکہ پہاڑ سر کی بجائے کندھوں وغیرہ پر بھی ٹوٹ سکتا ہے ‘جو سراسر محاورہ سازوں کی غلطی ہے۔ آپ اگلے روز ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم ہمیں انتقام کا نشانہ بنائیں ‘عوام کا استحصال نہ کریں:نفیسہ شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ'' وزیراعظم ہمیں انتقام کا نشانہ بنائیں‘ لیکن عوام کا استحصال نہ کریں‘‘ اور یہ بھی دراصل ہمارا ہی استحصال ہوگا ‘کیونکہ ہمارے جتنے شرفا پر مقدمات بن رہے ہیں ‘ان کے منطقی انجام کو پہنچتے ہی ہم لوگ بھی عوام ہو کر ہی رہ جائیں گے‘ کیونکہ سناہے کہ ان معززین سے ان کی نیک کمائی بھی واپس لے لی جائے گی‘ کیونکہ جیل سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جیل تو زرداری صاحب کے بقول یہ سب کا دوسرا گھر ہے ‘جو کہ بالآخر پہلا گھر ہو کر ہی رہ جائے گا؛ حالانکہ گھر بنانا بھی کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے ‘جبکہ ہمارا اعتراض اس محاورے پر بھی ہے ‘کیونکہ خالہ جی کی جگہ پھوپھی صاحبہ کا گھر بھی ہو سکتا تھا‘ جبکہ انتقامی کارروائی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پھوپھی صاحبہ فریال تالپور کے گھر کی تعمیر کیلئے بھی پیسے انہی جعلی اکائونٹس میں لے گئے تھے ۔اس لیے اس محاورے کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
آج کا مطلع
پہرے دار ہے‘ سو سکتا ہے
اب تو کچھ بھی ہو سکتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں