سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز روکے گئے‘
تو ایوان نہیں چلنے دیں گے: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز روکے گئے‘ تو ایوان نہیں چلنے دیں گے‘‘ کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو کل کو میرے پروڈکشن آرڈرز بھی روکے جائیں گے کہ میری ایل این جی انکوائری بھی آگے بڑھ رہی ہے اورمیرے خلاف بھی انتقامی کارروائی کا مذموم ارادہ ہے اور اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی مذموم ارادے ہیں‘ جن کی وجہ سے سے جملہ شرفاء مصیبت میں آئے ہوئے ہیں اور ان کا خون خشک کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ جنگ کا زمانہ ہے اور ہر شخص کو دشمن کے خلاف اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانا ہے اور اگر خون خشک ہوا تو اس کا بہنا نا ممکنات میں سے ہے‘ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ بہانے کیلئے خون کا یہ آخری قطرہ پہلے ہی نکال کر رکھ لوں‘ تا کہ وقت آنے پر مایوسی کا منہ نہ دیکھنا پڑے اور اسے بہا کر اسی طرح سرخرو ہو جائوں‘ جیسے ہمارے قائدین عدالتوں سے یکے بعد دیگرے سرخرو ہو رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں رانا ثناء اللہ سے گفتگو کر رہے تھے۔
پائلٹ کی رہائی بیرونی دبائو کا نتیجہ ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پائلٹ کی رہائی بیرونی دبائو کا نتیجہ ہے‘‘ جس میں خاکسار کا اپنا دبائو بھی شامل تھا‘ کیونکہ سب کو پتا ہے کہ میں اگر کسی کے اوپر بیٹھ جائوں تو اس کا بھرکس نکال دیتا ہوں۔ اس لیے حکومت نے یہ اقدام اپنا بھرکس بچانے کیلئے کیاہے‘ کیونکہ اگر بھرکس نکل جائے تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ اس لیے جان بچانے کی طرح بھرکس بچانا بھی آدمی کا فرض ہے اور میں خود بھی بہت محتاط رہتا ہوں کہ اگر میرے اُوپر کوئی مجھ سے بھی صحت مند آدمی بیٹھ جائے ‘تو میرے بھرکس کا بھی نام و نشان باقی نہیں رہے گا اور میں خود بھی کسی کا بھرکس نکالنے کے قابل نہیں رہوں گا‘ جو میں نے سالہا سال میں حاصل کیا ہے اور مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے میچور رویہ اپنایا: ندیم افضل چن
وزیراعظم کے معاون خصوصی ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ ''اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے میچور رویہ اپنایا‘‘ جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہمارے بیشتر وزرا کو بھی میچور رویہ اپنانے کی ضرورت کا احساس ہو گیا ہے اور جوں جوں اسمبلی کے اجلاس ہوتے رہیں گے‘ ہم اپوزیشن سے میچور رویہ سیکھتے رہیں گے ‘تا کہ اگلی بار ہمارا رویہ مکمل طور پر میچور ہو جائے کہ آدمی ماں کے پیٹ سے تو سب کچھ سیکھ کر نہیں آتا‘ ماسوائے رونے کے‘ کیونکہ پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے اپنے اس رویے کا اظہار کرتا ہے اور رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے ‘کیونکہ باہر کا ماحول دیکھ کر اس کا رونے ہی کو جی چاہتا ہے کہ اندر میں کتنے اطمینان میں تھا ‘لیکن باہر آ کر میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں‘ اس لیے ضروری ہے کہ پیدائش کے بعد بچے کو مکمل اندھیرے میں رکھا جائے ‘تا کہ وہ باہر کا ماحول دیکھ کر رونے نہ لگ جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
ریلوے کی ترقی کیلئے ترکی کے تجربات
سے فائدہ حاصل کریں گے: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ریلوے کی ترقی کے لیے ترکی کے تجربات سے فائدہ حاصل کریں گے‘‘ بلکہ ہر کام میں کسی نہ کسی بیرونی ملک کے تجربات سے فائدہ کریں گے اور رفتہ رفتہ خود بھی اس قابل ہو جائیں گے کہ دوسرے ممالک ہمارے تجربات سے فائدہ حاصل کر سکیں‘جبکہ مجھے خود بھی ریلوے وزیر رہنے کا کافی تجربہ حاصل ہے ‘لیکن مجھے اپنے تجربے پر کچھ زیادہ اعتبار نہیں ہے‘ اس لیے ڈرتا ہوں کہ کہیں کام خراب ہی نہ کر بیٹھوں اور اسی لیے میں قومی اسمبلی میں بھی شہباز شریف والی کمیٹی کا چیئر مین بننا چاہتا تھا‘ تا کہ اس کا بھی تجربہ حاصل کر سکوںجو شاید ریلوے میں بھی کام آ جائے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ قومی اسمبلی مجھ سے استفادہ نہیں کرنا چاہتی جو کہ بعد میں پچھتائے گی‘ مگر اس وقت چڑیاں کھیت چگ چکی ہوں گی‘ جبکہ ان میں چڑے شامل نہیں ہوں گے ‘کیونکہ وہ تو ہمارے گوجرانوالے والے دوستوں نے کھا کھا کر ان کا بیج ہی مار دیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ترکی کے سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
گھول ڈالا ہے خود کو یوں تجھ میں
دونوں موجود بھی ہیں‘ غائب بھی
آ کے نکلی نہیں میرے دل سے
تیری صورت کبھی کسی صورت (نعیم ضرار)
خود بخود چھوڑ گئے ہیں تو چلو ٹھیک ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
اک نئی طرز کا اظہار دیا جائے گا
اس کہانی میں مجھے مار دیا جائے گا (اسد اعوان)
اُس رات ضبطِ درد کی شدت نہ پوچھیے
جس رات میرے شہر میں آئے ہوئے تھے آپ (ث سے ثبین)
اندھیرے دور کرے‘ نور سے اجالے مجھے
کوئی تو ہو جو ترے بعد بھی سنبھالے مجھے
دو کنارے جنہیں قربت تھی گھنے پیڑوں کی
کل وہ دریا کو بچاتے ہوئے خود ڈوب گئے (آزاد حسین آزاد)
کسی نے توڑ کر فٹ پاتھ دل کا
سڑک کو بے سہارا کر دیا ہے
مجھے آزاد کرنا ہے کسی کو
میرے زندان کی چابی کہاں ہے
خوف نے جب دستک کے لہجے پہنے تھے
جانے کس نے کس کے جوتے پہنے تھے (شعیب زمان)
آج کا مطلع
دل کو تنہائی سے آباد کیا
ایک ناشاد کو یوں شاد کیا