حکومت کو مشکل میں ڈالنے کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں: زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت کو مشکل میں ڈالنے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں‘‘ کیونکہ ہم حکومت کو زیادہ سے زیادہ مشکل ہی میں ڈال سکتے ہیں۔ اس کا تختہ الٹنے سے تو رہے اور اس کا سب سے بڑا اور اچھا طریقہ یہ ہے کہ اسے مزید مقدمات کی تفتیش میں الجھا دیا جائے‘ تا کہ اسے نانی یاد آ جائے؛ حالانکہ دادی بھی یاد آنا چاہئے‘ کیونکہ بزرگوں کے معاملے میں امتیازی سلوک روا نہیں رکھنا چاہئے اور سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھنا چاہئے اور جب کہ دوسری آنکھ سے کئی اور مفید کام لیے جا سکتے ہیں‘ جو آنکھ مارنے سے شروع ہو کر آنکھ لڑانے اور آنکھ چرانے تک پھیلے ہوئے ہیں ‘جبکہ یہی پھیلائو ہماری تفتیش کا بھی طُرۂ امتیاز ہے اور تفتیشی بیچاروں کو مصیبت پڑی ہوئی ہے کہ جعلی اکائونٹس کی بھرمار میں انہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا‘ جبکہ بعض پراسیکیوٹر حضرات ان سے بھی زیادہ نالائق ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنمائوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اگر جہاد کا اعلان ہوا تو وزارت چھوڑ کر محاذ پر چلا جائوں گا: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''اگر جہاد کا اعلان ہوا تو وزارت چھوڑ کر محاذ پر چلا جائوں گا‘‘ اور بذریعہ ٹرین ہی جائوں گا‘ کیونکہ میں وزارت چھوڑ سکتا ہوں‘ ٹرین نہیں اور اگر جیل آصف زرداری کا دوسرا گھر ہے تو ٹرین میرا دوسرا گھر ہے‘ بلکہ تیسرا گھر بھی یہی ہے ‘کیونکہ مال گاڑی بھی ٹرین سے کسی طور کم نہیں ہے‘ نیز اللہ میاں نے بلوچستان میں بارش اور سیلاب سے پانی کی ریل پیل کر دی ہے‘ تاہم محاورے کو تھوڑا تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ یعنی ریل پیل کی بجائے ٹرین پیل کہنا زیادہ مناسب ہے‘ جبکہ محاوروں کی درستی کے لیے ایک علیحدہ محکمہ بلکہ وزارت ہونی چاہئے ‘جس کا اضافی چارج خاکسار کو دیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔
ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کی بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کی بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے‘‘ جبکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کی بجائے ایک ہاتھ آپ کی جیب پر ہونا چاہئے‘ تا کہ اسے جیب تراش حضرات سے بچایا جا سکے جن کا ہر طرف دور دورہ ہے‘ یعنی ہر وقت دوروں پر رہتے ہیں ؛حالانکہ پروٹوکول کی گاڑیوں کے بغیر وہ دورے کرتے ہوئے کیا اچھے لگتے ہوں گے اور اتنی آمدن ہونے پر وہ اپنے لیے گاڑیوں کا انتظام بھی کر سکتے ہیں‘ نیز ایک ہاتھ جیب پر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرا ہاتھ فارغ رکھنا چاہئے‘ کیونکہ مڑتے وقت ہاتھ بھی دینا پڑ جاتا ہے‘ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ٹریفک اصولوں کی کوئی خاص پابندی نہیں کی جاتی ‘جبکہ ہاتھ اگر فارغ ہو تو بقول شاعر اس کا ایک فائدہ اور بھی ہے‘ یعنی ع
مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے
آپ اگلے روز لاہور میں پرویز الٰہی سے ملاقات کر رہے تھے۔
آج کل دماغ میں صرف پاکستان چل رہا ہے: نریندرمودی
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ''آج کل دماغ میں صرف پاکستان چل رہا ہے‘‘ جس کی وجہ سے دماغ خراب بھی ہو چکا ہے اور کسی چیز کی سمجھ نہیں آتی اور ہو سکتا ہے کہ دماغ کسی لمحے خود ہی چل جائے‘ جبکہ بالاکوٹ وغیرہ میں ہم نے جو تباہی مچائی ہے‘ مخالفین اس کا ثبوت مانگ رہے ہیں‘ جبکہ ہم نے وہاں اتنے بندے مارے ہیں کہ اپوزیشن سن کر پریشان ہو جائے اور انہیں اسی پریشانی سے بچانے کیلئے ہی انہیں ثبوت وغیرہ فراہم نہیں کیے جا رہے؛ حالانکہ جتنا پہنچا ہوا بزرگ میں ہوں‘ انہیں میری بات پر ہی یقین کر لینا چاہئے‘ ویسے بھی کرنے کے لیے اب باتیں ہی رہ گئی ہیں۔ کام تو پاکستان نے کر دکھایا ہے ‘جس سے منہ کا سارا مزہ ہی خراب ہو گیا ہے‘ نیز ایک دوست ملک کے ساتھ مل کر کارروائی کا ارادہ کیا تھا‘ یعنی پاکستان کو اس کی پیشگی ہی خبر ہو گئی۔ لگتا ہے‘ ان کی ایجنسیاں کافی چغل خور واقع ہوئی ہیں۔ آپ اگلے روزبھارتی گجرات کے علاقے جام نگر میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اور ‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
جسم تو میرا مسئلہ ہی نہیں
اس قدر کیوں سمٹ کے بیٹھے ہو (خالد ندیم شانی)
وہ مجھے مل کے مسکراتا نہیں
اُس کے اندر کا زہر جاتا نہیں
دوسروں سے تو کیا ملوں جا کر
میں تو اپنی طرف بھی جاتا نہیں
عشق ہے دربدر مگر اس کو
حُسن اپنا پتا بتاتا نہیں
سب سناتے ہیں دشت کے قصّے
اور کوئی راستا بتاتا نہیں
کیا ازل‘ کیا ابد کہ جب شہزادؔ
کوئی ان کے سِرے ملاتا نہیں (قمر رضا شہزادؔ)
میں ساتھ چلتے ہوئے حشر تک بھی آ گیا ہوں
وہ سوچتا تھا کہاں اتنی دُور آئے گا (آزاد حسین آزادؔ)
میں نے خاموش محبت کو یہاں رکھا ہے
یعنی اس دل سے کبھی شور نہیں جا سکتا (توصیف یوسف شعر)
میں معذرت طلب ہوں تمہیں جانتا نہیں
میرا براہِ راست تعلق مجھی سے ہے (اعتبار ساجد)
اُس کی آنکھوں تک آ کے سوچتا ہوں
میں جُدائی کی راہ پر تو نہیں (ندیم بھابھہ)
آج کا مقطع
جب چور‘ ظفرؔ‘ کہیں نہیں تو
پھر شور یہ کیوں مچا ہوا ہے