"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن اور عامر سہیل کی تازہ غزل

ہسپتالوں میں خانہ بدوشوں کی طرح گھمایا گیا: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''مجھے ہسپتالوں میں خانہ بدوشوں کی طرح گھمایا گیا‘‘ اگرچہ خانہ بدوش اپنی مرضی سے گھومتے ہیں اور مجھے بھی اپنی مرضی ہی سے گھمایا جا رہا تھا‘ کیونکہ مجھے کوئی ہسپتال پسند ہی نہیں آ رہا تھا اور وہاں مجھے پرہیزی کھانا بھی فراہم نہیں کیا جا سکتا تھا؛ حالانکہ ساری دنیا کو پتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے؛ البتہ اب میثاق جمہوریت کے اطباء کی خبروں سے صحت کچھ بہتر ہونا شروع ہوئی ہے؛ اگرچہ بلاول ابھی بچہ ہے‘ اس لیے یہ میثاق اُلٹا بھی پڑ سکتا ہے‘ جبکہ شہباز صاحب بھی اس کے حق میں نہیں‘ کیونکہ اندر خانے وہ ہر اُس چیز کے خلاف ہیں‘ جس سے مجھے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہو اور وہ پارٹی میں مجھ سے الگ اپنا دھڑا بھی بنا رہے ہیں‘ لیکن یہ پتا نہیں کہ اُن کا مکو بھی ٹھپا جانے والا ہے اور مجھ سے بے وفائی کا مزہ بہت جلد چکھنے والے ہیں‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز جیل میں اپنے ملاقاتیوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
لانگ مارچ اور جیل بھرو تحریک چلانے کے لئے تیار ہیں: بلاول 
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ اور جیل بھرو تحریک چلانے کیلئے تیار ہیں‘‘ اور اگر پہلے جیل بھر دی‘ جس کیلئے ایک بیرک ہی کافی ہے‘ بعد میں لانگ مارچ اسی طرح شروع کی جا سکتی ہے کہ یہ تحریک اُس بیرک سے ہی شروع کر دی جائے‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ جیل کی صفائی ستھرائی کا کام پہلی فرصت میں شروع کر دے‘ کیونکہ ہم بنیادی طور پر صفائی پسند واقع ہوئے ہیں‘ یعنی ہاتھ کی صفائی سے لے کر جیبوں کی صفائی تک؛ البتہ نیت کی صفائی کے حوالے سے ہمارا ہاتھ تنگ ہے‘ کیونکہ نیت کو صاف رکھنے کیلئے اپنے آپ پر بہت جبر کرنا پڑتا ہے‘ جبکہ ہم صرف دوسروں پر جبر کے قائل ہیں‘ کیونکہ سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکلتا‘ بیشک سر کڑاہی میں ہو اور ٹانگیں باہر‘ کیونکہ ٹانگوں کا باہر ہونا اس لیے بھی ضروری ہے‘ تا کہ کسی کے پھٹے میں ٹانگ اڑائی جا سکے‘ کیونکہ پھٹے بھی ملک میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہو گئے ہیں‘ نیز میرے تازہ بیان سے مودی صاحب بہت خوش ہوں گے کہ اگر وہ نواز شریف کے یار ہو سکتے ہیں‘ تو میرے کیوں نہیں؟ آپ اگلے روز کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ پوری طرح آزاد نہیں: خواجہ سعد رفیق
سابقہ وزیر ریلوے اور مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''پاکستان کی پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے‘‘ کیونکہ ہم تو پورا آزاد ہونے میں یقین رکھتے ہیں‘ جبکہ ریلوے انجنوں کی خریداری سے ہی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ جس سے یہ ظاہر کرنا بھی مقصود تھا کہ پاکستان ایک امیر کبیر ملک ہے ا ور اس کے وزیر بڑے دل گُردے کے مالک ہیں اور ہمارا دل اتنا بڑا ہے کہ ملک کے پورے عوام ہمارے قائد کے دل میں بستے ہیں اور اس کے اندر ایک کہرام مچائے رکھتے ہیں ‘جس کی وجہ سے اُنہیں بار بار دل کا معائنہ کرانا پڑتا ہے اور وہ ٹھیک اس لیے نہیں ہو رہے‘ کیونکہ یہاں کے ہسپتال اُن کی نظر میں ہسپتال ہی نہیں اور صرف خانہ بدوشوں کے رہنے کے قابل ہیں ۔علاوہ ازیں وہ اپنا گھر کاندھوں پر اُٹھا کر لندن جانے کو بھی تیار ہیں‘ تاکہ خانہ بدوشی کا کچھ مزہ وہاں جا کر بھی چکھا جا سکے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک اخباری بیان جاری کر رہے تھے۔
نواز شریف بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو کھل کر بتا دیں: یاسمین راشد
صوبائی وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''نواز شریف بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو کھل کر بتا دیں‘‘ تاکہ ہم بھی انہیں کھل کر جواب دے سکیں کہ ' ایں خیال است ‘ محال است و جنوں‘ بلکہ مریم نواز کو چاہیے کہ گھر میں بیٹھ کر اُن کیلئے دعا کریں کہ معصوم لوگوں کی دُعاؤں میں ویسے ہی بڑا اثر ہوتا ہے اور جن کیلئے دعا مانگی جائے وہ‘ اگر خود بھی کافی پہنچے ہوئے ہوں تو دُعا کبھی خالی نہیں جاتی ‘جس کا پیٹ کے خالی ہونے سے کوئی تعلق نہیں‘ جبکہ کچھ لوگوں کے پیٹ کو حسرت ہی رہتی ہے کہ کبھی اسے خالی بھی چھوڑ دیا جائے کہ کبھی کبھار آرام کرنے کو اس کا بھی جی چاہتا ہے‘ جبکہ بلاول بھٹو زرداری کی تجویز کے مطابق؛ ہم انہیں کراچی بھی نہیں بھیج سکتے ‘کیونکہ ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے پرانے زخم جاگ اُٹھیں اور وہ ان کا علاج ہی نہ کرائیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کر رہی تھیں۔
اور اب آخر میں عامر سہیل کی یہ تازہ غزل:
سارا تارہ دمکو بھی
عین بدن پر چمکو بھی
تیرا ہجر سُنائی دے
پتّوں کی سرگم کو بھی
پہلی بار ملے تھے کب
یاد نہیں ہے غم کو بھی
زخم سے رو رو ملتا ہے
چین نہیں مرہم کو بھی
تنہائی کی دعوت ہے
رات کے زیروبم کو بھی
حمد کیا انجیلوں نے
اک ہرنی کے رم کو بھی
ہم پہ دیر کا لازم ہے
حفظ کریں ماتم کو بھی
سُولی کو میرون کریں
پُرسہ دیں مریم کو بھی
ہونٹ‘ یہودی ہونٹ ہنسیں
فکر ہے لاحق ہم کو بھی
جس کی سُولی بنتی ہے
موت پڑے شیشم کو بھی
آج کا مقطع
دل کے اندر جنہیں محفوظ سمجھتا رہا میں
چل دئیے وہ بھی ظفرؔ توڑ کے گھیرے میرے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں