ہسپتال میں علاج نہیں کرائوں گا، معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہسپتال میں علاج نہیں کرائوں گا، معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے‘‘ اور یہ بھی صرف اس لیے کہا ہے کہ بر بنائے صحت ضمانت کی درخواست دے رکھی ہے کہ اس طرح شاید عدالت کا دل پسیج جائے اور ضمانت منظور ہو جائے۔ میرے تمام تر اوصافِ حمیدہ کے باوجود مجھے تین بار وزیراعظم بنایا اور میں نے تینوں بار اپنے اوصافِ حمیدہ کا جی بھر کر استعمال کیا کیونکہ کوئی ہُنر ہو تو اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنا چاہئے جبکہ انصاف کا طلبگار ہرگز نہیں ہوں، کیونکہ اس صورت میں تو میری ضمانت قیامت تک نہیں ہو سکتی کیونکہ سارا کچا چٹھا سب پر عیاں ہے حالانکہ یہ کچا چٹھا اب تک پکا چٹھا بن جانا چاہئے تھا لیکن یہاں پر کوئی بھی چیز اپنے آپ اور وقت پر ٹھیک نہیں ہوتی اور ان حالات میں یہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ آپ اگلے روز جیل میں ملاقاتیوں سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
تحریک انصاف مودی کی پالیسی پر چل رہی ہے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور رکن قومی اسمبلی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف مودی کی پالیسی پر چل رہی ہے‘‘ اس لیے میں مودی کی پالیسیوں پر کیوں نہیں چل سکتا اور ملک میں دہشت گردوں کے حوالے سے میرا بیان مودی صاحب کی امنگوں کے عین مطابق ہے جبکہ ہماری امنگوں کا خیال یہاں پر کسی کو نہیں ہے اور منی لانڈرنگ والا کیس بھی اسی وجہ سے کراچی سے راولپنڈی منتقل کر دیا ہے کیونکہ وہاں کوئی مائی کا لال ہمارے خلاف گواہی نہیں دے سکتا اور کوئی دینے پر تیار بھی ہوا تو اس کا انتظام ہم اچھی طرح کر لیتے اور یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت کیا گیا ہے کیونکہ ہمارے خلاف ہو یا حق میں ہر کام ایک سازش کے تحت ہی سر انجام پاتا ہے بلکہ اسے زیادہ باقاعدہ بنانے میں مراد علی شاہ سے کہوں گا کہ سازش کے معاملے میں ایک وزارت قائم کر لی جائے جس کا کام مخالفوں کے خلاف سازشیں کرنا اور اپنے حق میں سازشیں تیار کرنا ہو کیونکہ سازش کا جواب سازش ہی کے ذریعے دیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
خدمت حکومت کا مشن، پولیس رویے میں بہتری لائے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عوام کی خدمت حکومت کا مشن، پولیس رویے میں بہتری لائے‘‘ جبکہ دونوں کام بہت مشکل نظر آتے ہیں کیونکہ ہم تقریروں سے عوام کی خدمت کر رہے ہیں جو ہمارے مخالفین کے بقول خدمت کے زمرے میں ہی نہیں آتیں، اوپر سے وزیراعظم صاحب نے ہمارے ٹھوٹھے پر ڈانگ مار کر ہماری تنخواہوں میں اضافے کے بل ہی کو سبوتاژ کر دیا ہے حالانکہ یہ ایک باقاعدہ کام تھا اور ہم کہہ سکتے تھے کہ صرف تقریریں نہیں، ہم کام بھی کر رہے ہیں جبکہ تنخواہوں میں اضافے سے ہماری کارکردگی کو بھی چار چاند لگ سکتے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود وزیراعظم بھی ہماری کارکردگی کے حق میں نہیں ہیں جس پر سوائے صبر کے اور کیا کیا جا سکتا ہے جبکہ عوام بھی چھ ماہ سے صبر ہی کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی ہماری طرح صبر کے فضائل سے پوری طرح سے آگاہ ہیں اور دعا ہے کہ وہ مسلسل صبر سے تنگ آ کر کہیں بے صبرے نہ ہو جائیں اور سڑکوں پر نہ آ جائیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پولیس موبائل خدمت کا افتتاح کر رہے تھے۔
حکومت عوام کو خوشخبری دینے کی بجائے ڈرا رہی ہے: عبدالغفور حیدری
جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ''حکومت عوام کو خوشخبری دینے کی بجائے ڈرا رہی ہے‘‘ حالانکہ ہم نے عوام کو جو یہودیت کے غلبے سے ڈرا رکھا ہے ان کے لیے وہی کافی ہے اور اگر مزید ڈرانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ کارِ خیر بھی ہم ہی سر انجام دیں گے جبکہ حکومت نے ہمارے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو الگ سے ڈرا رکھا ہے کہ وہ انہیں کوئی سہولت وغیرہ فراہم نہیں کر سکتی جس کا وہ بار بار مطالبہ بھی کر چکے ہیں اور حکومت کی خوشنودیٔ طبع کی خاطر ملین مارچ بھی مؤخر کر چکے ہیں، آخر حکومت کو کسی کی قربانی کا تو کچھ خیال ر کھنا چاہئے جبکہ مولانا صاحب بھی تو صرف خیالی ہی رکھے جانے کے خواہشمند ہیں جبکہ حکومت کے خزانے میں کوئی کمی نہیں اور اگر کوئی تھی بھی تو وزیراعظم صاحب مانگ تانگ کر اسے کافی بھر لیا ہے، اس لیے ہمارا اگلا نعرہ یہ ہوگا کہ 'کر بھلاسو ہو بھلا، انت بھلے کا بھلا‘ اور یہ بھی کہ 'دے جا سخیاراہِ خدا تیرا اللہ ہی بُوٹا لا وے گا‘۔ آپ اگلے روز سکھر میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
معلوم
یہ اعظم کمال کی غزلوں کا مجموعہ ہے جسے کمال پبلشرز نے چھاپا اور خاکسار کو تاکیدِ تبصرہ کے لیے ارسال کیا ہے اور اس کی قیمت 450 روپے رکھی ہے۔ ٹائٹل شرجیل بن اعظم نے بنایا ہے جو غالباً ان کے صاحب زادے ہیں۔ انتساب انہوں نے اپنے آبائو اجداد کے نام کیا ہے۔ ٹائٹل اور پسِ سر ورق ‘ دونوں جگہ مصنف کی تصویر ہے جبکہ اندرون سرورق ایک طرف احمد ساقی کی توصیفی رائے درج ہے اور دوسری جانب مصنف کی دیگر تصانیف کی تفصیل درج ہے۔یہ روٹین کی شاعری ہے جو ملکِ عزیز میں ٹنوں کے حساب سے تخلیق کی جا رہی ہے اور جن کی اشاعت کے لیے ناشرین کی منت سماجت بھی کرنا پڑتی ہے اور ان کی عندالطلب خدمت بھی۔ یہ کتاب چونکہ مصنف نے خود چھاپی ہے اس لیے ناشر کی خدمت و خوشامد سے بچ گئے ہیں۔ اعظم کمال صاحب کو یہ کام دھڑا دھڑ جاری رکھنے کی بجائے جدید اردو غزل کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہاں تک پہنچ چکی ہے اور کمال صاحب خود کہاں پہ کھڑے ہیں کیونکہ شاعری کی کتاب ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے جو آپ اپنے ہم عصرشعرا کی طرف پھینکتے ہیں، اب آپ خود ہی سوچیں کہ یہ شاعری کسی ہم عصر کے لیے کوئی چیلنج ہو سکتی ہے؟
آج کا مطلع:
دل میں کوئی بھی خیال اور جو آیا ہی نہ ہو
کیا کریں یاد اُسے جس کو بھلایا ہی نہ ہو