"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن اور ضمیر ؔطالب کی تازہ شاعری

ضمانت ہونے سے قبل علاج نہیں کراؤں گا: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ضمانت ہونے سے پہلے علاج نہیں کراؤں گا‘‘ اور مجھے کچھ ہو گیا تو الزام کسی پر تو دھرنا پڑے گا‘ نیز اپنے سابقہ نعرے ''مجھے کیوں نکالا‘‘کی جگہ نیا نعرہ ''مجھے کیوں نہ نکالا‘ ‘اپنانا پڑے گا؛ اگرچہ میرے جملہ عزیز و اقارب مجھے علاج کیلئے مجبور کر رہے ہیں‘ لیکن علاج کروا کر بھی کیا کروں گا کہ سیاست میری پہلے ہی ختم ہو چکی ہے اور خون پسینے کی جوکمائی ہے ‘وہ حکومت نے نکلوا لینی ہے‘ علاج نہ کرا کر کم از کم سیاسی شہید تو کہلا سکوں گا‘ جس کیلئے یہ سُنہری موقعہ ہے اور موقعہ پرستی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس سے خوب فائدہ اٹھایا جائے‘ پیشتر اس کے کہ یہ بھی ہاتھ سے نکل جائے ۔ آپ اگلے روز جیل میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت مخالفین کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہی ہے: مراد علی شاہ
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہی ہے‘‘ جبکہ اس کی وجہ سے جمہوریت کیلئے بھی سخت خطرہ پیدا ہو گیا ہے‘ کیونکہ؛ اگر‘ مثلاً :زرداری صاحب کو قید کر لیا گیا‘ تو جمہوریت کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہو جائے گا اور ساری قوم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہے گی‘ جس کا صرف ایک فائدہ یہ ہوگا کہ میرے سمیت دوسروں کو بھی یہ دیکھنے کا موقعہ ملے گا کہ ٹامک ٹوئیاں کیا ہوتی ہیں‘ کیونکہ ہم نے بھی اس کا صرف نام ہی سُنا ہوا ہے اور اگر مجھے بھی اندر کر دیا گیا تو جمہوریت کا چاند بھی طلوع ہونے سے انکار کر دے گا اور لوگ اندھیری راتوں میں ایک دوسرے سے ٹکراتے پھریں گے اور آدھی قوم زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ جائے گی ‘جبکہ ملک میں تو اتنے ہسپتال بھی نہیں ہیں ؛اگرچہ اس بات کا آج تک پتا نہیں چل سکا کہ حکومت ہمارے خلاف کس بات کا انتقام لے رہی ہے ؛چنانچہ کارروائی کے ساتھ ساتھ حکومت کو اس بات کی وضاحت بھی کر دینی چاہئے کہ وہ کس چیز کا انتقام لے رہی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آپ جو بوتے ہیں ‘وہی کل کاٹنا پڑتا ہے: مریم نواز
سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''آپ جو بوتے ہیں وہی کل کاٹنا پڑتا ہے‘‘ کیونکہ یہ قدرت کا اصول ہے اور ہم بھی آج کل وہی کاٹ رہے ہیں‘ جو ہم نے بویا تھا اور پھر اسے کھاد وغیرہ بھی لگائی تھی اور پانی بھی دیتے تھے؛ حالانکہ چچی تہمینہ دُرانی ‘نواز شہبازدونوں بھائیوں کو بار بار کہتی تھیں کہ احتیاط سے چلو‘ لیکن دونوں خراٹے بھرتے ہوئے چلتے تو رہے‘ لیکن احتیاط کرنا بھول گئے اور اب دونوں شکنجے میں ہیں اور حکومت نہ کوئی ڈیل کر رہی ہے‘ نہ ڈھیل دے رہی ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ چچا جان صرف اپنی جان چھڑانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور انہیں بھائی صاحب کی کوئی فکر ہی نہیں ہے ‘بلکہ میرے مقابلے میں حمزہ شہباز کو لانے کے ارادے باندھ رہے ہیں‘ لیکن خاطر جمع رکھیں‘ جان ان کی بھی نہیں چھوٹے گی کہ یہ اُن کی چہیتی اشرافیہ کے بس کا بھی روگ نہیں ہے اور صرف عدالت ہی ریلیف دے سکتی ہے۔والد صاحب‘ جس کے بارے میں گل فشانیاں کرتے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ملاقات نہ کروانے پر جیل حکام پر اظہار ناراضی کر رہی تھیں۔
ماضی کی حکومتوں نے خواتین کو حقوق دینے 
کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ماضی کی حکومتوں نے خواتین کو حقوق دینے میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا‘‘ لیکن ہم ان کیلئے کچھ ضرور کریں گے‘ لیکن پہلے یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ ٹھوس اقدام کیا ہوتا ہے‘ کیونکہ ہم نے تو غیر ٹھوس‘ یعنی نرم و ملائم اقدام بھی کبھی نہیں اٹھایا‘ بلکہ روز بروزمجھے ہٹانے کی افواہیں اڑتی رہتی ہیں‘ جبکہ مجھے نہ ہٹانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم کو یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ وزیراعظم ہیں اور جس دن خاتونِ اوّل نے انہیں یاد دلا دیا تو یوں سمجھیے وہ سب سے پہلے مجھ غریب ہی کا گھونٹ بھریں گے‘ کیونکہ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر مناتی رہے گی ؟ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ضمیرؔ طالب کی تازہ شاعری:
روشنی اتنی ہی پہنچے گی یہاں
میں کہیں اور جلایا ہوا ہوں
ٹھیک سے یاد نہیں لگتا ہے
میں کسی کام سے آیا ہوا ہوں
کچھ نہیں پانے کے لیے بھی ضمیرؔ
جانے کیا کیا پڑا ہے کھونا مجھ کو
ہے پیاس ہم کو اور کسی چیز کی ضمیرؔ
پینے کو دستیاب مگر اور چیز ہے
میں سمجھتا تھا میں مسافر ہوں
اب کھلا ہے کہ راستہ ہوں کوئی
مرے قریب سے خود تو گزر گئی چپ چاپ
پر اُس کا جسم رہا محوِ گفتگو مجھ سے
کسی طرح نکل آؤں تری محبت سے
پھر اس کے بعد میں دیکھوں گا تجھ کو فرصت سے
جیسے جیسے وہ دُور ہوتا جاتا تھا
اُس کی آواز پاس آتی جاتی تھی
خود کو اُس نے آدھا سونپا
مجھ کو سارا رکھ لیا ہے
دے دیا ہے مجھ کو دریا
خود کنارا رکھ لیا ہے
آج کا مطلع
یاد کی کوٹھڑ ی میں بیٹھا ہوں
یوں تری حاضری میں بیٹھا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں