"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن‘ ریکارڈ کی درستی اور رفعت ناہید

حکمران عوام نے منتخب کیے نہ ان سے خیر کی توقع ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ'' حکمران عوام نے منتخب کیے نہ ان سے خیر کی توقع ہے‘‘ تاہم خیر کا مطلب خیرات نہ سمجھا جائے‘ کیونکہ ہم صرف تعاون قبول کرتے ہیں‘ خیرات نہیں؛ اگرچہ اس تعاون کا ثواب بھی خیرات سے کم نہیں‘ بلکہ خاکسار کو تو حکومت چھوڑ‘ خیر کی توقع اپوزیشن سے بھی نہیں اور ملین مارچ موخر بھی اس لیے کیا گیا کہ اس پر خرچہ کون اٹھائے گا کہ میرے پاس تو جوئیں بھی نہیں‘ اس لیے سر کھجانے کی نوبت بھی کبھی نہیں آتی؛ حتیٰ کہ کان بھی ترس گئے ہیں کہ کوئی جوں ان پر بھی رینگ جائے ۔ آپ اگلے روز چارسدہ میں جلسۂ دستار بندی سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت تجربے سے عاری‘ ترقی کا راستہ رک گیا:رانا تنویر حسین
نواز لیگ کے سینئر رہنما رانا تنویر حسین ایم این اے نے کہا ہے کہ ''حکومت نااہل‘ تجربے سے عاری‘ترقی کا راستہ رک گیا ہے‘‘ جبکہ ہماری حکومت نااہل ضرور تھی ‘لیکن تجربے سے عاری نہیں تھی اور جس کام کا تجربہ اسے حاصل تھا‘ اس کی اس نے اخیر کر دی تھی اور ترقی بھی اسی وجہ سے ہوئی تھی اور ترقی کا راستہ اس لیے بھی رک گیا ہے کہ حکومت کو اس کام کاتجربہ ہی نہیں‘ جو ہمارے قائد کے بقول ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے‘ جبکہ ضروری تو اور بھی بہت سی چیزیں ہیں‘ مثلاً: نواز شریف کو بغرض علاج لندن بھجوانا وغیرہ‘ کیونکہ وہ اسی کلینک سے اپنا علاج کروانا چاہتے ہیں‘ جہاں سے انہوں نے ہارٹ سرجری کروائی تھی ‘جہاں کبھی اینگرے سائٹس کا آپریشن بھی نہیں ہوا تھا اور اس ایک آپریشن ہی سے وہ دنیا بھر میں ہارٹ سرجری کیلئے مشہور ہو گیا ۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف محض ضمانت کیلئے ہسپتال
نہ جانے کادبائو ڈال رہے ہیں:عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''نواز شریف محض ضمانت کیلئے ہسپتال نہ جانے کا دبائو ڈال رہے ہیں‘‘ جبکہ میں نے عہدے پر قائم رہنے کیلئے کسی پر دبائو نہیں ڈالا‘ جبکہ مجھے ہٹانے کیلئے وزیر اعظم پر دبائو ضرور ڈالا جا رہا ہے‘ جس کیلئے مختلف امیدوار اپنی اپنی کارگزاری کا حوالہ بھی دے رہے ہیں‘ جبکہ ان احمقوں کویہ معلوم نہیں کہ مجھے انہوں نے وزیراعلیٰ بنایا ہی اس لیے تھا کہ میں کہیں کوئی کارگزاری نہ کر بیٹھوں اور الحمدللہ میں ان کے معیار پر سو فیصد پورا اترتا ہوں اور کبھی تنکا بھی توڑ کر دُہرا نہیں کیا ‘جبکہ یہاں صفائی کا انتظام ایسا ہے کہ تنکا یہاں ایسے ہی دستیاب نہیں‘ جسے توڑا جا سکے۔آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت محروم طبقوں کو پائوں پر کھڑا کرے گی:شفقت محمود
وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے کہا ہے کہ ''حکومت محروم طبقوں کو پائوں پر کھڑا کرے گی ‘‘اور اس سے مراد یہ ہے کہ محروم طبقے کو اس کے اپنے پائوں پر کھڑا کرے گی ‘جبکہ ہم خود اپنے پائوں پر کھڑے نہیں‘ بلکہ ان کے پائوں پر کھڑے ہیں‘ جو ہمیں لائے تھے‘ کیونکہ ان کے پائوں خاص طور پر بڑے مضبوط ہیں ‘جو خود بہت مضبوط بوٹوں پر کھڑے ہیں‘ اس لیے محروم طبقہ پہلے خود یہ فیصلہ کرے کہ اس کے پائوں کیا واقعی ایسے ہیں کہ وہ ان پر کھرے ہو سکتے ہیں یا نہیں‘ کیونکہ یہ نہ ہو کہ ہم انہیں پائوں پر کھڑا کریں اور وہ دھڑام سے نیچے آ رہیں اور الٹا ہمیں لینے کے دینے پڑ جائیں اور نیکی برباد‘ گناہ لازم ہو کر رہ جائے‘ جبکہ ماشاء اللہ محروم طبقہ ویسے بھی سراسر گنہگاروں پر مشتمل ہے‘ اس لیے پائوں پر کھڑا ہونے سے پہلے انہیں اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے‘ کیونکہ وہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی بندے بشر واقع ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
جناب آصف عفان نے اپنے کل والے کالم میں جو اشعار درج کیے ہیں‘ آخری شعر بے وزن ہو گیا ہے‘ یعنی ؎
تبدیلی گلے پڑ گئی‘ زندگی بجھ گئی
ٹیکس کے کھیل میں کیا تمہارا گیا‘ میں تو مارا گیا
شعر کا پہلا مصرع محل ِ نظر ہے۔ اصل مصرع معلوم نہیں کس طرح ہوگا‘ تاہم وزن پورا کرنے کیلئے اس کی شکل اس طرح ہو سکتی ہے: ع
یہ تبدیلی کیسی گلے پڑ گئی‘ زندگی بجھ گئی
اور اب آخر میں رفعت ناہید کے یہ تازہ اشعار:
اترے جو ذرا شب کی خماری تری جس دم
اور آنکھ کھلے نیند کی ماری تری جس دم
پھر دیکھ مجھے ہو گئی قربان میں تجھ پر
اور نذر بھی یوں جھٹ سے اتاری تری جس دم
سرکے ہی چلے آتے تھے ماتھے پہ یہ گھونگھٹ
سنوارئے بہت‘ زلف سنواری تری جس دم
زربافی سے باتوں کی مرے دل کو لپیٹا
چمکی تھی بہت سلمہ ستاری تری جس دم
بھنورا سی بنی پھرتی ہوں میں صحنِ چمن میں
گلگشت کو آتی ہے سواری تری جس دم
خوشبو میں کوئی عطر سا پیغام بھی ہو گا
گلیوں میں چلی بادِ بہاری تری جس دم
جھولا میں جھلائوں گی تجھے پی کے نگر کا
آئے گی سکھی پینگ کی باری تری جس دم
آج کا مقطع
جہاں سے فیض نہیں مل سکا کسی کو ظفرؔ
ہم اُٹھ کے آج اسی آستاں سے آئے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں