بڑی مچھلی کو پکڑنے کا حکم ہے‘ میں تو چھوٹا آدمی ہوں: قائم علی شاہ
سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ''بڑی مچھلی کو پکڑنے کا حکم ہے‘ میں تو چھوٹا آدمی ہوں‘‘ بلکہ چھوٹی مچھلی یا چھوٹا مگرمچھ کہہ سکتے ہیں اور اس لحاظ سے ہم جملہ سیاستدان اور بیورو کریسی پانی کے باسی ہی ہیں اور اس میں ڈبکیاں لگاتے اور نہاتے ہیں ‘جبکہ ہمارے قائد تو کبھی پانی سے باہر نکلے ہی نہیں اور نہ ہی اُنہیں پانی باہر نکلنے دیتا ہے‘ کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے کی عادت پڑی ہوئی ہے‘ جبکہ اب حکومت اور احتسابی ادارے اُنہیں بے آب کرنا چاہتے ہیں؛ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی جبکہ بارشوں میں پانی میں اضافے اور اس میں کھل کر نہانے کا وقت آیا ہے تو ان ساری مچھلیوں اور مگرمچھوں کو پانی سے دُور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ اگلے روزکراچی میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
جلد رہائی کے لیے پراُمید ہوں: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''جلد رہائی کیلئے پرامید ہوں‘‘ کیونکہ میں نے ملاقاتوں پر بھی یہ ظاہر کرنے کیلئے پابندی لگا دی تھی کہ میری صحت اس قدر خراب ہے کہ اپنے عزیز و اقارب سے بھی ملاقات نہیں کر سکتا اور اپنی خوراک بھی بہت کم کر دی تھی‘ اسی لیے کل صرف کریلے گوشت پر ہی گزارہ کرنا پڑا؛ اگرچہ جج صاحب نے کہہ دیا ہے کہ اگر ضمانت ہو بھی گئی تو میں بیرون ملک نہیں جا سکوں گا‘ لیکن وہ ضمانت تو لیں‘ میں اُنہیں بیرون ملک جا کر بھی جا کردکھا دوں گا؛ اگرچہ شہباز صاحب مجھ سے بالا بالا اپنے لیے کوششیں کر رہے ہیں؛ حالانکہ وہ اگر میرے لیے کوشش کریں تو میں باہر نکل کر اُن کیلئے بہت کچھ کر سکوں گا اور اگر ضمانت نہ ہوئی تو جیل میں کم از کم اپنی پسند کا کھانا تو کھا سکوں گا‘ کیونکہ میں اپنے اوپر کھانے کی پابندی لگا کر کفرانِ نعمت کا مرتکب نہیں ہو سکتا‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز کوٹ لکھپت جیل میں اپنے اعزہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
حالات بہتر ہونے پر ارکان اسمبلی کی تنخواہ بڑھے گی: عثمان بزدار
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''حالات بہتر ہونے پر ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ بڑھے گی‘‘ جبکہ حالات ہمیں اس قدر خراب ملے ہیں کہ ان کے بہتر ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں؛ حتیٰ کہ میری مراعات بھی ساتھ ہی لگ گئی ہیں‘ اس لیے ارکان اسمبلی میرے ساتھ اظہارِ ہمدردی کر رہے ہیں اور میں اُن کے ساتھ ،اور اس جذبے کی قدر کرنی چاہیے‘ بلکہ ہر طرح کے جذبے کی قدر کرنی چاہیے‘ کیونکہ جذبہ ہی ہماری سب سے بڑی دولت ہے‘ جو ہماری خوشحالی کی نشانی بھی ہے اور اسی طرح عوام بھی خوشحال ہو سکتے ہیں‘بلکہ مجھے تو اپنی وزارت کی پڑی ہوئی تھی۔ آپ اگلے روز چھانگا مانگا میں میڈیا اور اعلیٰ افسروں سے گفتگو کر رہے تھے۔
احتساب کے نام پر اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے: رانا تنویر
سابق وفاقی وزیر اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''احتساب کے نام پر اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘‘ وہ تو شُکر ہے کہ پراسیکیوشن کی نااہلی کی وجہ سے اکثر مقدمات ناکام ہو رہے ہیں‘ ورنہ ہمارے پاس‘ تو اتنے پیسے ہی نہیں ہیں کہ ہم مہنگا وکیل مقرر کر سکے؛ حالانکہ پلی بارگینگ سے اپوزیشن کافی خوشحال ہو چکی ہے‘ نیز اُسے دوسروں کی خوشحالی پر حسد نہیں کرنا چاہیے کہ یہ اللہ کی دین ہے‘ وہ کسی کو زیادہ تو کسی کو بہت زیادہ دیتا ہے۔ سو‘ جو لوگ ہمارے قائد کے مالا مال ہونے پر حاسدانہ رویہ رکھتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ بھی ہاتھ پاؤں مار کر ان جیسے ہو جائیں؛ اگرچہ اُن جیسا ہونے میں قید کا مسئلہ بھی ہے‘ لیکن جیلیں بھی انسانوں ہی کے لیے بنائی گئی ہیں‘کیا کبھی کسی نے کی گائے بھینس یا گدھے گھوڑے کو بھی جیل میں قید دیکھا ہے؟ ویسے بھی‘ دن ایک جیسے نہیں رہتے‘ اور اچھے بھی آ سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دیوار پہ دیا
یہ حسن عسکری کاظمی کا مجموعۂ غزلیات ہے‘ جسے طلوعِ اشک نے چھاپا ہے ۔ ٹائٹل اسلم کمال کے موقلم کا نتیجہ ہے‘ جبکہ انتساب بھی انہی کے نام ہے‘ جو اس طرح سے ہے ''پاکستان کے نامور مصور‘ شاعر‘ خطاط (کلامِ اقبال نقشِ کمال) اسلم کمال کے نام ‘‘ ؎
وہ مصور بھی‘ سخنور بھی وہ خطاط بھی ہے
اُس کا ہر رنگ تصور کو بھی تسخیر کرے( حسن عسکری کاظمی)
مصنف اگر نیچے اپنا نام نہ بھی لکھتے تو بھی یہی سمجھا جاتا کہ یہ انتساب اُنہی کی عطا ہے۔ ''قاری سے مکالمہ‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ بھی شاعر کا قلمی ہے‘ جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ ''دیوار پہ دیا‘‘ میرا نواں شعری مجموعۂ کلام ہے‘ اس سے پہلے میرے آٹھ اردو غزل کے مجموعے شائع ہوچکے‘ شاعر نے یہاں بھی یہ وضاحت ضروری سمجھی ہے اور قاری کو ذہن نشیں کرایا ہے کہ آٹھ مجموعوں کے بعد جو مجموعہ شائع ہو‘ وہ نواں ہوتا ہے۔ پس سرورق شاعر کی تصویر ہے اور تین منتخب شعر‘ اندرون سرورق بھی دونوں طرف ایک ایک غزل درج ہے۔ دوسری غزل کا مقطع اس طرح سے ہے ؎
پھول بھی جھڑنے لگے مُنہ سے حسنؔ
آ گیا ہے سچ لبِ اظہار پر
پھول بھی سے ایسا لگتا ہے کہ '' سچ بولنے کے دوران شاعر کے منہ سے پھول کے علاوہ کچھ اور بھی جھڑتا ہے‘ جسے وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں‘‘۔حسن عسکری صاحب نے ساری کتاب میں سچ ہی بولا ہے اور ان کے مُنہ سے پھول ہی جھڑتے دکھائی دیتے ہیں ۔ع
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
آج کا مطلع
کر ہی دے گا کبھی ازالہ بھی
خوش رہے رنج دینے والا بھی