بھاڑ میں جائے آپ اور آپ کا بیانیہ‘ میرا نظریہ نہیں بدلے گا: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''بھاڑ میں جائیں آپ اور آپ کا بیانیہ‘ میرا نظریہ نہیں بدلے گا‘‘ جیسا کہ پہلے والد صاحب نے اینٹ سے اینٹ بجانے والا اپنا نظریہ تیسرے دن ہی تبدیل کر لیا تھا اور کافی عرصے کیلئے ملک سے باہر چلے گئے تھے؛ حالانکہ ملک میں بجانے کیلئے اینٹوں سے بھٹے بھرے پڑے تھے‘ لیکن انہوں نے بزدلی دکھائی‘ جو کہ میں نہیں دکھاؤں گا‘ کیونکہ دکھانے کیلئے میرے پاس اور بہت کچھ موجود ہے‘ زیادہ سے زیادہ مجھے اندر کر دیں گے اور میرا مقصد بھی یہی ہے کہ جیل سے باقاعدہ لیڈر بن کر نکلوں ‘ ورنہ جب تک میرے سر پر والد صاحب کا سایہ موجود ہے‘ میں لیڈر بننے سے رہا اور اب ایسا نہیں ہوگا ‘کیونکہ وہ جلدی ہی اندرجانے والے ہیں‘ اور اگر مجھے بھی اندر جانا پڑا‘ تو میرا مطالبہ ہوگا کہ مجھے والد صاحب والی جیل میں نہ ڈالا جائے‘ اور جہاں تک میرے بیان کا بھارت نواز ہونے کا تعلق ہے تو میاں نواز شریف‘ جو اتنا عرصہ بھارت نواز رہے ہیں‘ تو اُن کو بھی اس بارے میں پوچھا جائے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی خواہش
کامیاب نہیں ہونے دیں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی خواہش کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘ اور اسے پوری طاقت سے روکیں گے‘ کیونکہ اگر ہم کچھ کر نہیں سکتے تو کچھ ہونے سے روک تو سکتے ہیں؛ اگرچہ پاکستان کا معاملہ وفاق سے تعلق رکھتا ہے اور میں محض ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہوں‘ تاہم بیان دینے میں کیا حرج ہے‘ نیز وفاق میں بھی بیورو کریسی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے اور فائلوں پر دستخط تک نہیں کر رہی‘ اس لیے یوں سمجھیے کہ سارا پاکستان ہی فارغ بیٹھا ہے اور وزیراعظم صاحب نے بھی جس کا نوٹس لیا ہے ‘لیکن اس کے خلاف کچھ کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے‘ کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ ملک تو پہلے ہی اپنے آپ چل رہا ہے تو بیورو کریسی کے بغیر کیوں نہیں چل سکتا ‘بلکہ اس کے بغیر زیادہ چلے گا‘ جبکہ روحانیت میں اتنی طاقت ہے کہ سارا کچھ اپنے آپ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور سارے کام زیادہ خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں؛ حتیٰ کہ مہنگائی اور بیروزگاری بھی اُسی رفتار سے چل رہی ہے۔ آپ اگلے روز یوم پاکستان پر مبارکباد کا پیغام دے رہے تھے۔
پاکستان کے غیر معمولی اقدامات کی وجہ سے مہنگائی بڑھی: سلمان شاہ
سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت کے غیر معمولی اقدامات کی وجہ سے مہنگائی بڑھی‘‘ حالانکہ سابقہ حکومت کے کارناموں کی وجہ سے مہنگائی نے خود ہی بڑھ جانا تھا۔ حکومت کو یہ تکلف اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ جبکہ سابقہ حکومت سمجھتی تھی کہ زن‘ زر اور زمین ؛چونکہ فساد کی جڑ ہوتے ہیں‘ اس لیے سب سے پہلے بڑے فسادی زر‘ یعنی روپے پیسے کو ٹھکانے لگایا جائے ‘تاکہ عوام امن اور صلح کے ساتھ رہ سکیں۔آپ اگلے روز نجی ٹی وی پر ایک پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
عوامی مسائل میں اضافہ حکمرانوں کی
ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے: رانا اشرف خاں
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا محمد اشرف خاں نے کہا ہے کہ ''عوامی مسائل میں اضافہ حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے‘ جبکہ ہمارے دور اقتدار میں عوامی مسائل میں اس قدر کمی واقع ہو گئی تھی اور لوگ پریشان ہو گئے تھے اور کہنے لگے تھے کہ جیسے بھی ہو‘ ان میں اضافہ کیا جائے؛ چنانچہ اُن کی فرمائش پر مسائل میں اضافہ کیا گیا‘ تو ذرا بداحتیاطی ہو گئی اور اضافہ اس قدر ہو گیا کہ لوگوں کی چیخیں ہی نکل گئیں ؛حالانکہ چیخنا چلانا کوئی اچھی بات نہیں اور یہ صرف بچوں کا کام ہے‘ کیونکہ چیخنے چلانے کے علاوہ بچوں کے پاس اور کوئی کام ہوتا بھی نہیں‘ اس لیے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور بچہ؛ اگر کچھ ضرورت سے زیادہ ہی چیخ چلّا رہا ہو تو اسے ایک تگڑی سی پھینٹی لگائیں‘ اس کے دو فائدے ہوں گے؛ ایک تو یہ کہ وہ روتا روتا سو جائے گا اور دوسرے یہ کہ جب وہ سو کر اُٹھے گا تو اُسے اچھی طرح سے یاد ہوگا کہ اُسے پھینٹی کیوں اور کس بات پر لگی تھی۔ آپ اگلے روز رائیونڈ سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
شعری مجموعہ''رخت‘‘
صائمہ اسحاق کی غزلوں کا یہ دوسرا مجموعہ ہے‘ جسے آواز پبلی کیشنز راولپنڈی نے زیور ِطبع سے آراستہ کیا ہے۔ انتساب اپنے شریکِ حیات عمران اسحاق اور اپنے نقش محمد عرشمان اسحاق کے نام ہے۔ اندرون سرورق دلاور علی آذر اور پروفیسر رضیہ سبحانی نے لکھے ہیں۔ دیباچہ نگاروں میں قاضی دانش صدیقی‘ شاہدہ حسن اور حمیرا راحت کے شامل ہیں‘ جبکہ پیش لفظ ''رختِ سفر‘‘ کے عنوان سے شاعرہ کا بقلم خود ہے۔ سرورق ذیشان نے بنایا ہے۔ پس سرورق شاعرہ کی تصویر ہے اور مختصر تعارف۔اس میں سے کچھ اشعار دیکھیے:
تیری دُنیا کے ضوابط نے دکھایا ہے یہ دن
تیرے جیسوں سے سند مانگنی پڑ جاتی ہے
کھل گئی ایک گرہ اندر سے
اور اُٹھتے گئے نقاب مرے
یہ ہُوا کچھ مزید مانگنے سے
جو تھا موجود وہ بھی سارا گیا
آسمانوں سے کہیں دُور تھی منزل میری
پر‘ وہ اُڑنے کو زمینوں سے تو جانے دیتا
تھی شہرِ ذات کے اوقات سے انجان‘ سو میں نے
تری سانسوں سے اپنی نبض کی گھڑیاں ملا لی ہیں
آنکھ ششدر سی کھلی رہ گئی چہرے پہ مرے
وہ اچانک ہی نمودار ہوا ہے مجھ میں
آج کا مقطع
اور بھی کام پڑے ہیں کئی کرنے کو‘ ظفرؔ
یہ ضروری تو نہیں ہے کہ محبت ہی کیے جائیں