نئے اضلاع بنانے کا جائزہ لے رہے ہیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''نئے اضلاع بنانے کا جائزہ لے رہے ہیں‘‘ کیونکہ ہم کسی چیز کا جائزہ ہی لے سکتے ہیں اور اس کو غنیمت بھی سمجھنا چاہیے ‘کیونکہ جائزہ تو دورانِ استراحت بھی لیا جا سکتا ہے‘ جبکہ اصل کام استراحت ہی ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کام بھی کرتے ہیں‘ جبکہ انہی خصوصیات کے باعث وزیراعظم نے میرے موجود رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور سپیکر صاحب سمیت کئی دیگر حضرات کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا ہے‘ ورنہ یہی پانی میرے سر سے گزر جاتا اور سر سے گزرنے کا مطلب سر کے ا وپر سے گزرنا ہے‘ سر کے اندر سے نہیں؛ اگرچہ سر کے اندر اور باہر ایک ہی صورت حال ہے؛ حالانکہ صورت حال میں کسی قدر تو تبدیلی ہونی ہی چاہیے‘ تاکہ ایک مثال تو قائم ہو جاتی کہ ہم نے تبدیلی لانا شروع کر دی ہے۔ آپ اگلے روز سول سیکرٹریٹ میں اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
لانگ مارچ کریں گے تو لگ پتا جائے گا: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ کریں گے تو لگ پتا جائے گا‘‘ اور یہ پتا ہمیں ہی لگے گا‘ کیونکہ اُس دوران وہی لوگ ہوں گے‘ جنہیں میں کراچی سے لے کر چلوں گا اور سارے سٹیشنوں پر اُلو بول رہا ہوگا اور ایسا لگتا ہے کہ اُلو بولنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے ‘جبکہ ہر اُلو کے ساتھ ایک آدھ اُلو کا پٹھہ بھی ہوتا ہے؛ اگرچہ اُلو دن کے وقت سوتا اور رات کے وقت جاگتا ہے‘ لیکن جہاں تک بولنے کا تعلق ہے ‘تووہ سوتے ہوئے میں بھی بولتا رہتا ہے‘ تاہم اُلو کا پٹھہ وہ کار ہائے نمایاں و خفیہ سرانجام نہیں دے سکتا‘ جو فرنٹ مین کا طرئہ امتیاز ہوتاہے‘ جو صرف اس وقت پکڑا جاتا ہے‘ جب سارا کام نمٹا چکا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز مختلف ریلوے سٹیشنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف مقدمات سے بری ہو جائیں گے: مفتاح اسماعیل
مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ''نواز شریف دونوں مقدمات سے بری ہو جائیں گے‘‘ جس کا آغاز ان کے ضمانت پر رہا ہونے سے ہو چکا ہے اور جونہی پلی بارگین کی تفصیلات طے ہوتی ہیں‘ رقم واپس کر کے ایک بار پھر وہ نہائے دھوئے گھوڑے ہو جائیں گے‘ جبکہ حکومت سارے پیسے لینے پر تُلی ہے؛ حالانکہ قوانین کے مطابق؛ مطلوبہ رقم کا زیادہ سے زیادہ تین چوتھائی ادا کرنا ہوتا ہے‘ جبکہ کمیشن اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ایسے میں لالچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے لندن کے سارے فلیٹ بکوانا سراسر زیادتی ہے‘ تاہم‘ کوئی بات نہیں؛ اگر ایک دور اور لگ گیا تو اس طرح کے کئی اور فلیٹ دوبارہ بن جائیں گے‘ لیکن آخر انصاف بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے؛اگرچہ تحریکِ انصاف کوئی چیز نہیں ہوتی‘ نہ ہم اسے کوئی چیز سمجھتے ہیں۔ ماسوائے برسراقتدار ہونے کے‘ جو وہ دھاندلی سے آئی ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر شریکِ گفتگو تھے۔
مہنگائی کا جِن قابو سے باہر ہو چکا ہے: لیاقت بلوچ
جماعت اسلامی کے رہنمالیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ''مہنگائی کا جِن قابو سے باہر ہو چکا ہے‘‘ اور جس بوتل سے یہ نکلا ہے‘ اس میں دوبارہ ڈالنے کے لیے کسی بڑے عامل کی ضرورت ہے ‘ جو جن نکالنے کے ساتھ ساتھ جن کو واپس بھیجنے میں بھی سعادت رکھتا ہو۔اول تو جن کو چاہیے کہ مہنگائی کو دیکھ کر خود ہی بوتل میں واپس چلا جائے‘ کیونکہ آخر شرم و حیا بھی کوئی چیز ہوئی ہے اور بقول خواجہ آصف کے‘ یقینا کوئی چیز ضرور ہوتی ہے۔ صرف آدمی کا یقین پختہ ہونا چاہیے اور جلد بازی سے کام لینے کی بجائے کچھ روز انتظار کر لینا چاہیے اور اسی فارمولے کے تحت سراج الحق کو بھی امارت کا چارج حاصل کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کہ جلدی تو ویسے بھی شیطان کا کام ہوتا ہے اور امارت کے لیے جو ریہرسل میں کر رہا ہوں‘ اس کے لیے مجھے بھی کچھ وقت درکار ہے‘ جو مجھے ملنا چاہیے۔ آپ اگلے روز منصورہ میں ذمہ داران کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب ''حویلی‘‘ کے عنوان سے رفعت ناہید کی یہ نظم:
مرے گھر کے رستے میں دو باغ ملتے ہیں
ہیں تو پھلوں کے‘ مگر پھول بھی ان میں کھلتے ہیں
خوشبو سے بھاری ہیں‘ لگتے اناری ہیں
انہیں سرخ باغوں کے اندر حویلی ہے
حویلی ہے کیا‘ خواب ہے یا پہیلی ہے
حویلی کے اندر بھی اک باغ پھیلا ہے
آنگن کشادہ ہے ‘پیچھے تو کمرے ہیں
آگے زیادہ ہے‘ ذرا ہٹ کے پہلو میں
پنجابی کرسی ہے‘ پیتل منقش ہے
رنگین پائے ہیں‘ شوقین تھا جس نے
جھنگ سے منگائے ہیں‘ کُرسی کے تکیے پہ
نیلا کشیدہ ہے‘ نیلے کشیدے پہ سارے ستارے ہیں
جیسے کسی نے فلک سے اُتارے ہیں
پنجابی کرسی پہ لڑکی اکیلی ہے
یہ جو اکیلی ہے میری سہیلی ہے
انہی پھول باغوں میں بچپن سے کھیلی ہے
وہ اُٹھ کے آتی ہے‘ شانے سے اپنا
پراندہ ہٹاتی ہے‘ بالوں میں سونے کی
پنی چمکتی ہے‘ آنکھوں میں
کاجل کی شوخی دمکتی ہے
مرے پاس آ کر ذرا مسکراتی ہے
مجھ کو بتاتی ہے
''ویسے تو سکھیوں میں تُو مجھ کو پیاری ہے
جھولا تو وہ لے گی ‘اب جس کی باری ہے‘‘
آج کا مقطع
ہوئے ہو فتح یاب تم جس کے اندر
ظفرؔ اس لڑائی میں کام آ گیا ہے