عمران خان فکر نہ کریں‘ حکومت نہیں گرائیں گے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان فکر نہ کریں‘ حکومت نہیں گرائیں گے‘‘ کیونکہ ہمیں تو خود اپنی فکر پڑی ہوئی ہے کہ ہم سب کے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘ کیونکہ ایک دو نہیں‘ سارے ہی انتقامی کارروائی میں اندر ہونے جا رہے ہیں‘ اور مجھے بھی طلب کر رکھا ہے ؛حالانکہ میں ادھر بھٹو ٹرین چلا رہا ہوں‘ جبکہ پارٹی تو والد صاحب ہی چلائیں گے۔ چاہے‘ انہیں جیل سے چلانی پڑے‘ کیونکہ اگر انکل نواز شریف جیل سے پارٹی چلا سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں‘ جنہیں جیل کا سالہا سال کا تجربہ بھی حاصل ہے اور جیل اُن کا دوسرا نہیں‘ بلکہ مستقل گھر بھی بننے جا رہا ہے؛ اگرچہ پھوپھی صاحبہ نے جو گھر بنایا ہے‘ اس کے لیے زیادہ تر پیسے جعلی اکاؤنٹس ہی سے لیے گئے تھے‘ جبکہ میں خود بھی ان پیسوں سے دال دلیا کرتا رہا ہوں‘ جس کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا کہ یہ دال تھی یا دلیا۔ آپ اگلے روز مختلف سٹیشنوں پر خطاب کر رہے تھے۔
بلاول حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں سنجیدہ ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''بلاول حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں سنجیدہ ہیں‘‘ جبکہ میرے لیے کوئی تحریک چلانے میں ہرگز سنجیدہ نہیں‘ بلکہ میں نے اس کے لیے کہا تو انہوں نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ بالکل سنجیدہ نہیں ؛ چنانچہ میں نے اُن سے کہا کہ میں اسے آپ کی طرف سے جواب ہی سمجھوں تو وہ بولے کہ میں فارسی تو نہیں بول رہا؛ حالانکہ فارسی اُن کے فرشتوں کو بھی نہیں آتی‘ کیونکہ میں نے اُن کے فرشتوں میں خود پوچھا تو وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگے ‘جبکہ پہلے میرا خیال تھا کہ سانپ کی طرح فرشتوں کے بھی کان نہیں ہوتے ؛چنانچہ خاکسار جیسے فرشتہ صفت انسانوں کے نا صرف کان ہوتے ہیں ‘بلکہ ان کے کانوں میں ایک پردہ بھی ہوتا ہے ‘جو لٹکانے والے پردوں سے ذرا مختلف ہوتا ہے؛ البتہ دیواروں کے جو کان ہوتے ہیں‘ کچے ہوتے ہیں اور انہیں پکایا نہیں جا سکتا‘ میں نے کوشش کر کے بھی دیکھا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت سے اب کوئی تعاون نہیں ہوگا: ایاز صادق
سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ''حکومت سے اب کوئی تعاون نہیں ہوگا‘‘ کیونکہ ہمارا جو اُلو سیدھا ہونے جا رہا ہے‘ اگر ہو گیا تو ہمیں کسی سے تعاون کی ضرورت ہی نہیں رہے گی‘ جبکہ نواز شریف کو بلاول کی یہ پیشکش کہ وہ کراچی آ کر اپنا علاج کرائیں‘ قبول کر لینی چاہیے‘ کیونکہ وہاں سے لانچ سروس بھی چلتی ہے‘ جبکہ یہاں تو سمندر کا نام و نشان تک موجود نہیں اور اگر لانچوں کے ذریعے پیپلز پارٹی کے زعماء کا اربوں روپیہ باہر جا سکتا ہے ‘تو نواز شریف کیوں نہیں؟ کیونکہ ان کا صحیح علاج لندن ہی میں ہو سکتا ہے‘ تاہم اب یہ سہولت مستقل طور پر حاصل ہو گئی ہے کہ صحتمند ہونے سے خود ہی گریز کریں گے‘ تاکہ بقایا عمر عزیز شریف سٹی ہسپتال ہی میں گزار سکیں‘ عدالتیں دیگر مقدمات کے فیصلے جو بھی کرتی رہیں‘ جبکہ ہسپتال سے وہ سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھ سکتے ہیں‘ جس سے عدالت نے انہیں منع نہیں کیا ہے۔ آپ اگلے روز گڑھی شاہو میں نواز شریف کی رہائی پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
کیسے بیتے یہ دن رات
یہ ہمارے ممتاز شاعر عبدالرشید کی نظموں کا مجموعہ ہے‘ جسے سانجھ لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب وحید احمد کے نام ہے‘ اسے انہوں نے شعری ڈائری کا نام دیا ہے۔ خوبصورت سرورق ریاظ کا تیار کردہ ہے۔ اس مجموعے میں سے ایک نظم ''آخری ضرب سے پہلے‘‘ پیش ہے:
آخری ضرب سے پہلے لاغر شوق کی چھتری کھلتی ہے/ اور املا کی دلدل میں قدرے بدحواس‘ ننگے پیروں/ میلوں چل کر ربط باہم کی تدریس کنارے پہنچا ہوں/ جو سمجھا ہے جو جانا ہے بس اتنا ہے/ کہ غیر مشروط تواتر کا جو گریہ ہے وہ عافیت ہے/ میں اور تُو وہ زنگ لگے اوزار ہیں‘ جن میں سختی ہے/ اور ان کے پیچھے کھلی ہوا کی راہداری ہے/ سیکڑوں ہونٹوں میں جو سیٹی ہے‘ وہ آپس میں متصادم ہے/ جو کچھ بھی رُتبہ حاصل ہے ‘وہ زیرنگیں ہیں/ خالی چھاج میں اپنے درد کو ایسے چھٹکتے جانا/ غیر دلچسپ تماشا ہے
اور اب ضمیر طالب کا تازہ کلام!
اُن کی نظروں سے آتی ہے خوشبو
جو تری دید کر کے آتے ہیں
خواب کرتے ہیں تقاضا جس کا
مجھے وہ نیند میسر ہی نہیں
وہاں بھی کوئی ہوتا ہے
جہاں کوئی نہیں ہوتا
اپنے غم کے لیے رکھا تھا جو اشک
کسی کے غم میں رو دیا میں نے
بڑی محنت سے میں ہارا ہوں یہ بازی ورنہ
میں وہ ناداں کہ محبت میں بھی جیتا ہوا تھا
دُور اک دیس میں شجر ہے ایک
جس کے سائے میں رہ رہا ہوں میں
گو کہ ناظر دکھائی دیتا ہوں میں
سچ تو یہ ہے کہ میں بھی منظر ہوں
کچھ نہیں کرنے کی خاطر بھی ضمیرؔ
میں بہت دُور سے جاتا تھا جہاں
رہ گئے وہ ڈھونڈتے کشتی ضمیرؔ
جبکہ رہ میں کوئی دریا بھی نہ تھا
اب مرے دل میں آیا ہے وہ ضمیرؔ
جبکہ میں اپنے دل سے باہر ہوں
آج کا مقطع
ظفرؔ کو آ کے بتائے گا کوئی تو اک دن
کہ ایسا لگتا ہے اب جھنگ تیرے ہونے سے