"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور نجیبہ عارف کی شاعری

اٹھارہویںترمیم کا ایک صفحہ بھی چھیڑا گیا تو سڑک پر ہوں گا: اسفند یار
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندر یار ولی خان نے کہا ہے کہ ''اٹھارہویںترمیم کا ایک صفحہ بھی چھیڑا گیا تو سڑک پر ہوں گا‘‘ کیونکہ ویسے بھی گھر سے باہر نکلے اور سڑک پر آئے کافی عرصہ ہو چکا‘ جس کی وجہ بے ہنگم ٹریفک ہے‘ جبکہ سڑک پر پیدل نکلنا ویسے بھی کوئی عقلمندی کی بات نہیں ‘ تاہم اس سے پہلے معلوم کروں گا کہ اٹھارہویں ترمیم کے کون سے صفحے کو چھیڑا گیا ہے‘ کیونکہ اس سے اندازہ لگایا جا سکے گا کہ میں نے سڑک پر نکلنا ہے یا کسی گلی میں نکلنا ہی کافی ہوگا‘ نیز یہ بھی معلوم کروں گا کہ اس صفحے کو کس طرح چھیڑا گیا ہے اور اگر اس چھیڑ چھاڑ کے بعد ہراسگی کی کارروائی ضروری ہوئی تو وہ بھی کروں گا‘ جبکہ چھیڑ چھاڑ کے واقعات ملک میں پہلے ہی تشویشناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ آپ اگلے روز صوابی میں خطاب کر رہے تھے۔
کیا قیامت ٹوٹی جو گھر پر دھاوا بولا گیا‘ ہم دہشت گرد ہیں؟ حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''کیا قیامت ٹوٹی کہ گھر پر دھاوا بولا‘ کیا ہم دہشت گرد ہیں‘‘ حالانکہ مالی دہشت گردی ہرگز دہشت گردی نہیں ہوتی اور سراسر مبالغے سے کام لیا گیا ہے‘ جبکہ اب تک دہشت گردی کی تعریف بھی متعین نہیں کی گئی‘ تاہم اس دھاوے کا مزہ ہمارے گارڈز نے آنے والوں کو خوب چکھایا‘ جس کے بعد انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف پرچہ بھی درج کرا دیا گیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ میرا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے ‘جبکہ چھوٹے بھائی سلمان شہباز کو لندن میں زکام کی شکایت ہو گئی ہے‘ جس کی بیمار پرسی کیلئے میرا وہاں جانا ضروری تھا؛ چنانچہ وہ اب کیا سوچے گا کہ اتنی خطرناک بیماری میں میرے بھائی کو روک لیا گیا ہے؛ حالانکہ فی الحال شاہد خاقان عباسی انکل کا نام ڈالنے پر بھی گزارہ ہو سکتا تھا؛ اگر یہی حالات رہے تو یہ ملک کیا خاک ترقی کرے گا؟ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہر محاذ پر ناکامی پسپائی کے بعد بھی حکومت 
گھٹیا ہتھکنڈوں سے باز نہیں آئی: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا کہ ''ہر محاذ پر ناکامی اور پسپائی کے بعد بھی حکومت گھٹیا ہتھکنڈوں سے باز نہیں آئی‘‘ حالانکہ اچھے اور عمدہ قسم کے ہتھکنڈوں سے بھی کام چلایا جا سکتا تھا‘ جس میں ہم خاطر خواہ جانکاری فراہم کر سکتے تھے‘ کیونکہ عمدہ ہتھکنڈوں کے بغیر اس مقدار میں خدمت نہیں کی جا سکتی‘ جس سے ہم سرخرو ہوئے ہیں‘ تاہم ابھی لاتعداد مقدمات میں ہمارا سرخرو ہونا ابھی باقی ہے‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ان گھٹیا ہتھکنڈوں سے باز آ جائے ‘ورنہ ہم سے بُرا کوئی نہ ہوگا‘ جبکہ آدمی اچھا یا بُرا اپنے کردار سے ہوتا ہے اور اگر کوشش کرتے تو ہم اس سے بھی بڑے ہو سکتے تھے‘ جس کیلئے ایک بار پھر اقتدار میں آنا ضروری ہے‘ بس ذرا پلی بارگین کی کسر باقی ہے‘جبکہ چچا جان پہلے اپنا اُلو سیدھا کرنا چاہتے ہیں ‘جو ہم سے بھی ٹیڑھا واقع ہوا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات کر رہی تھیں۔
موجودہ نااہل حکومت کو مزید وقت نہیں دیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''موجودہ نااہل حکومت کو مزید وقت نہیں دیں گے‘ گرا دیں گے‘‘ جبکہ بلاول ‘حکومت کو لات مار کر گرانا چاہتے ہیں‘ میں اسے پیٹ کی ایک ٹکر ہی سے اسے چاروں شانے چت کر دونگا‘ کیونکہ جب سے یہ خالی رہنے لگا ہے‘ اس کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے‘ جبکہ تجربے کے طور پر ایک دیوار کو ہلکی سی ٹکر لگائی تو وہ دھڑام سے نیچے آ رہی تھی اور ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اس طاقت کا پہلے مجھے ٹھیک سے اندازہ ہی نہیں تھا‘ اس لیے حکومت؛ اگر اپنی خیر چاہتی ہے تو یا تو میرے راستے سے ہٹ جائے یا مجھے اپنے راستے سے ہٹانے کی کوئی مخلصانہ کوشش کرے‘ جس کا طریقہ اگر اسے معلوم نہ ہو تو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے جا کر پوچھ لے‘ جبکہ عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
معانی سے زیادہ
یہ نجیبہ عارف کا مجموعۂ کلام ہے‘ جسے شہر زاد کراچی نے چھاپا اور اس کی قیمت 300روپے رکھی ہے۔ انتساب دو صفحات پر پھیلا ہوا ہے‘ جسے نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔ پس سرورق ادارے کی جانب سے شاعرہ کا تعارف درج ہے۔ اس میں نظمیں زیادہ ہیں اور غزلیں کم۔ ایک نظم دیکھئے :
گھاس کے پھول
مجھے معلوم ہے کہ میری نظمیں/ ادب کی دُنیا میں انقلاب/ برپا نہیں کر سکتیں/ گمراہوں کو ہدایت نہیں دے سکتیں/ تاریخ کا رُخ نہیں موڑ سکتیں/ لیکن مجھے اطمینان ہے/ کہ گھاس میں اُگنے والے ننھے ننھے/ خود رو پھول بھی تو/ یہ سب کام نہیں کر سکتے۔
اور اب غزلوں میں سے چند شعر:
اُس کی باتوں کے غبارے اُڑ رہے تھے رُوبرو
دل کوئی بچہ سا بھاگا پھر رہا تھا چار سُو
اک رات کی شدت ہے مرے عرصۂ جاں میں
امکان کے ہر دورِ زمانی سے زیادہ
آئینے میں عکس ہو یا عکس میں ہو آئینہ
کون جانے کون کیا ہو‘ توڑ دیکھو آئینہ
کسی آرزو کی ہے آرزو‘کسی جستجو کی ہے جستجو
کوئی ایک پل جسے اپنے آپ سے دُور ہٹ کے گزارتے
ہمیشہ زندگی میں ایک آنچ کی کسر رہی
یہ پھول سی کھلی نہیں‘ چراغ سی جلی نہیں
کر گئی ہے بارہا ہم کو بھری محفل کے اندر
مختصر سی اک نظر‘ چھوٹی سی کوئی بات تنہا
آج کا مقطع
یہ لگتا ہے اب تو کہ جیسے‘ ظفرؔ
مری زندگی میں وہ تھا ہی نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں